Tajziyat – Hisa Awal

تجزیہ ھائے نظریاتِ باطلہ دور جدید، تصحیح تحقیق و جوابات۔ حصہ اول

دنیا اب ایک ایسے سٹیج پر آئی یا لائی جاچکی ہے جہاں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کفر وشرک کے راستے کے تمام اوبسٹیکلز ہٹ چکے ہیں اور کفر و شرک کی یلغار متعدد روپ کے ساتھ ہر مسلم ملک سمیت جہاں جہاں ایمان والے موجود ہیں ان کے خلاف مختلف ناموں کے تحت، جیسے اینلائیٹنڈ، موڈریٹڈ، لبرل، وغیرہ نہ صرف مذہبی بلکہ معاشی اور معاشرتی طور پر بھی تابڑ توڑ حملے کیئے جارہے ہیں۔ اگر ایک طرف یہود و نصاریٰ کی ریشہ دوانیاں ہیں تو دوسری طرف یہ لبرل اور سیکولر بن کر مشرکوں کو بھی شہہ دیتے آئے ہیں جسکی عمدہ مثال بھارت اور برما ہیں۔ لیکن جب انتہاء پسند کی بات ہو، تو ماضی کے پرانے ڈرامےکی طرح اسلام کو نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ اب یہ ایک ہی رکاوٹ ان کافر معاشروں کے سامنےرہ گئی ہے۔ اس پوسٹ کا پہلا حصہ انتہاء پسندی کی ان اشکال پر سیر حاصل بحث پر مبنی ہوگا کہ جو ہمارے دیسی ساختہ بدیسی لبرل میڈیا پر نہ بتائے جاتے ہیں اور نہ ہی “دانش-وڑ” خود ان سے واقف ہوتے ہیں۔ اس کی ابتداء میں اسرائیلی کبالائی مذہب اور برہمن وادک دھرم کے مختلف اشتراکی عقائد کو جانچا جائیگا۔ کیونکہ اگرکسی نےماضی میں بچھڑے کی پوجا کی ہے تو آج ایک دوسری قوم بچھڑے کی جگہ گائے کی پجاری بن کر نسل انسانی کیلئے انتہاپسندی کی عمدہ مثال بن کر مسلسل اذیت کا سبب بنی ہوئی ہے۔ دراصل ہند پر قدیم ادوار ہی سے مشرکین بت پرستوں کا غلبہ رہا تھا اور جب خذار یا خضاریہودیوں نے ہند پر آریہ بن کر حملہ کیا اور قابض ہوئے تو یہی تمام مشرکین / بت پرستان کو اپنے قابو میں لانے کی خاطر کبالائی یہودی تصوف کی خود ساختہ تشریحات کرکے یہاں بطور “ہندوازم” ایک دھرم کے رائج کیا گیا۔ اسکی بابت مزید تفصیلات حوالہ جات کےساتھ تفصیلی ذکر کی جائینگی۔

اسرائیل، یہود اور صیہونیت:

سب سے پہلے یہ جان لینا چاہیئے کہ یہود اور صیہونیت میں فرق کیا ہے، صیہونیت اپنی بہن ہندوتوا کی طرح ایک نازی نظریہ ہے جو کہ مکمل طور پر نسل پرستی پر مبنی ہے۔ انسانی حقوق کے کسی قانون کا اطلاق اس مذہبی (اگر مذہبی کہا جاسکے) انتہاء پسندی پر نہیں ہوتا لیکن اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل کا رہنے والا یہودی چاہے دائیں بازو کا لبرل ہی ہو، وہ صیہونی کاز کیلئے اپنی شدید نفرت کے باوجود بھرپور سپورٹ بھی کرتا ہے۔ اسرائیل میں یہ مذہبی تقسیم اسقدر شدید ہےکہ جس کا تجزیہ کرنا آسان نہیں ہے، ہم یہ کہہ کر اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے کہ ایسی فرقہ پرستانہ تقسیم تو عیسائی اور اسلامی معاشروں سمیت متعدد میں ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ ذہن میں رکھنے کی اہم ضرورت ہے کہ یہ بیان مغربی اورینٹلسٹ کی جانب سے تو ہو سکتا ہے اور ہمارے ہاں کے جاہل لبرل مسلمان کہلائے جانے والوں کی جانب سے مگر یہ غلط اسلیئے ہے کہ “اسلام” یا اسلام سے متعلق “فرقہ پرستی” بھی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ بھی اسقدر وسعت نہیں رکھتی جو کہ مغربیانہ یا سیکولرانہ معاشرے رکھتے ہیں۔ اسرائیل میں مذہبی حوالے سے انتہاء پسند یہودی ہیریڈم کہلاتے ہیں اور قدرے اعتدال پسند یہودی مذہبی قومی (Religious – Nationals) کہلاتے ہیں۔ جیسے بھارت میں انتہاء پسند “ہندوتوا” جبکہ لبرل ہندو “سیکولر” کا نام استعمال کرتے ہیں۔

اوڈی 1996 کے انتخابات کے بعد کنیٹ کی کمیٹی برائے دفاع و خارجہ امور کا چیئرپرسن مقرر ہوا تھا۔ روزنبلم لیکوڈ سے تعلق رکھنے والے اس رکن کے بیان کو لکھتا ہے کہ (اگر شام کے حوالے سے رابن کی پالیسیوں پر عمل جاری رہا تو کسی صبح اسرائیلی یہودی دیکھیں گے کہ اسرائیلی ٹینک جولان کی پہاڑیوں سے بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح اتر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب گیلیلی کی آبادی پر 1973 کی جنگ سے زیادہ حملہ ہوگا۔ ۔۔۔۔۔ چونکہ شامی اسرائیلیوں کو بیدخل کرنے کے تصور کا ہمیشہ سے سوچتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اسلیئے جولان کی پہاڑیوں سے اسرائیل کے پیچھے ہٹنے کا صرف یہ نتیجہ نکلے گا ککہ شامی چاقو گیلیلی کے ہرباشندے کے گلے کو پہنچ جائیگا۔ شامی پالیسیوں کا تعین ایک “جینیاتی ضابطے کے تحت ہوتا ہے، یہ تیزرفتار تبدیلیوں سے اثر پذیر نہیں ہوتیں“۔

یہ کریہہ الفاظ سامیت دشمنی کےساتھ ساتھ انتہاء پسند اور بودی ناپاک کافرانہ ذہنیت کے عکاس ہیں۔ جس پر مغربی میڈیا نے ہمیشہ کی طرح دہرےمعیار کی روش برقرار رکھتے ہوئے خاموشی رکھی۔ حالانکہ اگر کوئی غیر یہودی سیاستدان یہودی پالیسیوں کو جینیاتی ضابطے سے متاثر اور تیز رفتار تبدیلیوں سے غیر متاثر قرار دیتا تو مغربی میڈیا اس پر یقینی طور پر غصے سے پھٹ پڑتا۔ یہی حال بھارت کے سوامی جی کی ہے،بھارت میں بھی ایسے ہی بیانات ہندوؤں کے ذہنوں میں مسلمانوں، عیسائیوں اور اب آکر اکا دکا حالات میں سکھوں کے خلاف بوئے گئے ہیں۔

ہلاکا (یہودی قانون) میں جہاں نسلی انتہاء پسندی کی تعلیمات موجود ہیں وہیں وہ تمام عناصر موجود ہیں جن کو غلط طور پر ہمارے ہاں کے دیسی لبرل اسلام پر تھوپنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جیسے کہ کچھ جہلا لبرل یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام عورت کی تعلیم کے خلاف ہے، (قطع نظر لفظ تعلیم کی بحث کے) وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام نے ہر ایمان والے اور والی کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے، لیکن ہلاکا میں عورت کے تالمود یا بائبل پڑھنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ عورت کو جتنا مقام اسلام نے دیا ہے اور جو تحفظ اسلامی روایات نے فراہم کیئے ہیں اسکا عشر عشیر بھی کوئی اور تہذیب تمدن پیش نہیں کرسکتی۔ اور انتہاء پسند یہودی مذہبی معاشرے میں عورت کو مذہبی رسومات میں بھی منو دھرم شاسترا کی طرح کمتر درجہ دیا گیا ہے۔ جیسے کہ مثال کے طور پر عورتوں کو سبت یا چوبیس گھنٹوں پر محیط ایسی ہی مقدس تعطیلات منانے کا حکم ہے۔ دوسری طرف عورتوں کو نئے سال کے موقع پر بجائے جانے والا شوفر (مینڈھے کا سینگ) سننا فرض نہیں۔ (نوٹ: شوفر کی رسم اور مندروں میں گھنٹیاں اور سنگھ پھونکنے کی رسم بھی ایک اور دلیل ہے کہ ہرہمنواد کی  پیدائش صیہونیت نے کی)روایتی یہودی مذہب کے مطابق جو عورت نئے سال کے موقع پر سیناگوگ جاتی ہے اور قرنا پھونکے جانے کی آواز سنتی ہے اسی یہی عمل کرنے والے مرد کی نسبت خدا کم صلہ دے گا۔ کیونکہ عورت پر قرنے کی آواز سننا فرض نہیں ہے جبکہ مرد پر فرض ہے۔ تاہم تالمود میں (تراکٹیٹ کِدوشِن صفحہ 34 الف) پر آیا ہے کہ عورتوں پر “تورات پڑھنا” فرض نہیں ہے۔یہ قانون ہلاکا کا حصہ ہے۔

میمون / میمونائڈس نے اس امر کا جواب کہ کیا عورتوں کو مقدس مطالعات سے فیضیاب ہونے کی اجازت نہیں، ایسے دیتا ہے کہ:

تورات پڑھنے کے قوانین (باب اول، قانون 13) میں لکھتا ہے

تورات پڑھنے والی عورت کو خدا صلہ تو دیتا ہے، لیکن یہ تورات پڑھنے والےمرد کو ملنےوالے صلے سے کم ہوتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چند لائنوں کےبعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ داناؤں نے ایک شخص کو حکم دیات ھا کہ وہ اپنی بیٹی کو تورات کی تعلیم نہ دے کیونکہ بیشتر عورتیں تعلیم حاصل کرنے کی طرف مائل نہیں ہوتیں اور وہ ناسمجھی کے باعث تورات کی تعلیم کو بے معنی بنا دیتی ہیں، داناؤں نے کہا ہے: جو شخص اپنی بیٹی کو تورات پڑھاتا ہے وہ اس شخص جیسا ہے جو اپنی بیٹی کو بے مزہ معاملات سکھاتا ہے”۔ تاہم یہ قانون صرف تالمود پڑھانے پر عائد ہوتا ہے۔ اگر کسی عورت کو بائبل کی تعلیم دی جائے تو ایسا کرنا اسے بے مزہ معاملات کی تعلیم دینے کے مترادف نہیں ہوگا۔

ایک مشہور اسرائیلی صحافی کادیدلیپر نے نوجوانی میں ایک یشیوا میں تعلیم حاصل کی تھی بعد میں سیکولر بن گیا۔ اس نے 19 اپریل 1997ء کے ہائر میں شائع ہونے والے اپنے مضمون بعنوان “عورت: غلاظت سے بھری بوری” میں لکھا:

مارپیٹ، جنسی درندگی، سفاکی، حقوق سے محرومی، عورت کا صرف ایک جنسی تسکین دینے والی شے کی طرح استعمال۔۔۔۔۔۔۔۔ تم ان سب باتوں کو تالمود میں پا سکتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہزار برسوں سے عورتوں کو یہودی آرتھوڈوکسی میں ایک اچھا مقام حاصل ہے۔ یہ اس مقام سے مختلف ہے جیسا کہ ربی بیان کرتے ہیں۔ ہلاکا کے مطابق جانوروں اور مویشیوں کی طرح عورت کا مقام کوڑے کا ڈھیر ہے۔ یہودی آرتھوڈوکسی کے مطابق ایک مرد بیوی کہلانے والی غلام عورت کو محض کھانے اور لباس کے عوض جنسی عمل کیلئے خریدتا ہے”۔

آئیے ذرا دیکھیں کہ سیکولر بھارتی دھرم کی بنیادیں عورت کے بارے میں کیا کہتی ہیں۔

منو دھرم شاسترا کا 9واں باب عورت و مرد سے متعلق ہے اسکی شق نمبر 16 کہتی ہے( مالک مخلوقات نے ان کی تخلیق میں جو مزاج داخل کردیا ہے اسے جانتے ہوئے (ہر) مرد کو پوری سختی سے اپنی بیوی کی نگرانی کرنی چاہیئے۔ (17) (عورتوں کی تخلیق کرتے ہوئے) منو نے عورتوں میں (ان کے بستر کی محبت) ودیعت کردی اور ساتھ (ان کی) جائے قیام، زیورات، ناپاک خواہشات، غضب، بے ایمانی، بدطینتی اور بداطواری کی بھی۔)۔ یہی منو اسی باب کی مزید شقات میں لکھتاہے (عوتوں کیلئے مقدس کلمات سے کوئی (تقدیسی) رسم ادا نہیں کی جاتی، یہی طے شدہ قاعدہ ہے۔ عورتیں جو (قوت سے) محروم ہیں اور (ویدوں کی عبارات) کے علم سے بھی (بہ نفسہی)جھوٹ کی سی ناپاک ہیں؛ یہ طے شدہ قاعدہ ہے۔ شق 19 میں لکھا ہے: ویدوں میں اسی مضمون کی بہت سی عبارات موجود ہیں تاکہ (عورت کی) اصل فطرت (اچھی طرح) واضح کردی جائے۔

چونکہ جیسا کہ صیہونیت کا جدید یہودی عقیدہ ہے ویسے ہی تمام تر غلاظتیں اور پابندیوں کی جڑ بھی عورت ہی کو قرار دیا گیا ہے نیز چونکہ صیہونیوں نے ہندوازم کو باقاعدہ بتدریج مرضی خود سے دھرم بنا کر برہمن راج کے نام کے تحت اپنے لیئے اس وقت کے ہند میں آسانیاں پیدا کرنی تھیں لہٰذا برہما کا نام استعمال کرکے ایک طرف تو چار جاتوں کی تقسیم کا بیہودہ عقیدہ راسخ کیا جس میں خود کو سب سے اوپر بٹھا کر انتظامات اپنے ہاتھ کرلیئے، کھشتری ان کو یوں بنانے پڑے کہ ظاہر ہے زورآور لوگ برہمن کی بات کیوں مانتے جب تک اس نظام میں انکے لیئے کچھ نہ ہوتا تو اسی وجہ سے کھشتریوں کو بطور بادشاہان اور بطور اونچی ذات بعد از برہمن مقرر کیا۔ چونکہ نظام بغیر محنت کشوں کے نہیں چلتا اسلیئے “ویش” بنانے پڑے جو کام کاج کرنے والے لوگ تھے، اور جو بالکل غریب یا غلام تھے ان کو شودر کے نام سے تقسیم کردیا گیا۔ لہٰذا ان تقسیمات کے تحت شق نمبر 23 و 24 کے مطابق ارزل ترین ذات کی عورت اکشا مالا، بشسٹ اور سارنگی منڈیال سے وصل کے بعد معزز ٹھہرتی ہیں لیکن ہندو سامراج کی بدکرداری ان شقات سے بھی آگے یوں عیاں ہوتی ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کافر اور مشرک معاشرے اپنی تباہی کا سامان خود ترتیب دیتےہیں جیسے کہ نصاریٰ کی بائیبل میں جہاں (انسیسٹ تعلقات) کی تعلیم ہے وہی معاشرہ لادینیت کا شکار ہوکر اور اپنے مذاہب میں تغیروتبدل کے ان کاموں کے ہاتھوں بے دین بن کر انسیسٹ بن جاتا ہے۔ ایسی ہی تعلیم اس مشرک ہندوانہ نظام میں ہے کیونکہ منو جی کی دھرم شاسترا کے باب 9 کی شقات59 تا62 ملاحظہ ہو

شق نمبر59: (اپنے خاوند سے) اولاد حاصل نہ کرسکنے والی عورت، اجازت ملنے کے بعد (مقررہ قواعد کے مطابق) اپنے دیور یا جیٹھ یا (خاوند کے سپنڈ میں سے) کسی مرد کے ساتھ اولاد کیلئے مباشرت کرسکتی ہے۔

شق نمبر 60: (مباشرت کیلئے) مقرر کیا گیا (مرد) جسم پر گھی مل کر رات کو خاموشی سے (رجوع کریگا) اور (ایک ہی) بیٹا پیدا کرے گا، کسی صورت میں دوسرا نہیں۔

شق نمبر61: قانون کے شناور کچھ اور (ماہرین) صرف ایک لڑکے (کی پیدائش) کو مذکورہ بالا اجازت کے مقصد کی تکمیل کیلئے ناکافی خیال کرتے ہوئے دوسرے لڑکے کی بھی اجازت دیتے ہیں۔

62۔ لیکن جب (مباشرت) کیلئے مقرر کیئے جانے کا مقصد قانوناً پورا ہوجائے تو دونوں ایک دوسرے کیلئے باپ اور بہو کی طرح ہونگے۔

شق 63: وظیفہ مذکورہ بالا کے مجاز بعد میں بھی قواعد سے انحراف کرتے ہیں تو وہ اسی طرح دھرم باہر ہوجائیں گے جیسے بہو یا گرو کے بستر کو ناپاک کرنے والے (مرد)۔

یہ ہے عورت کا وہ مقام جس کا ذکر کوئی بھی لبرل سوسائیٹی کا دیسی لبرل اور انسانی حقوق کی علمبردار اور لال لال لہرانے والی چیزیں نہیں کرتیں۔

اس بات سے قطع نظر کہ یہ شقات کس قدر بیہودہ اور کس قدر نفسانیت پر مبنی ہیں، اگر اس کے اثرات دیکھنے ہوں تو آج کے جدید دور میں مغربی اور بھارتی معاشروں میں دیکھے جاسکتے ہیں جہاں ہم جنس پرستی کے ساتھ ساتھ لیسبیئن ازم اور مغربیت کی ماری ان کی خواتین کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے اور اسی لیئے “ریپ کیپیٹل آف دی ورلڈ کا اعزاز” اسی “اچھے بچے بھارت” کو حاصل ہے مغرب کے نزدیک کیونکہ گندگی میں دونوں ایک جیسے اعمال کے عادی ہیں۔ بھارتی بھابیوں، بہنوں کے پیچھے پڑے ہیں تو مغربی بھی انسیسٹ۔

ہم جانتے ہیں کہ صیہونی یہودی اسرائیل میں کئی ڈاکٹرز نے فلسطینیوں یا دیگر عقائد کے یہودیوں کے بھی علاج سے انکار کردیا تھا، ایسا ہی حال کشمیر کے معاملے میں بھی ایک دو ہندو ڈاکٹرز نے کیا تھا۔ چونکہ بھارت میں یہودی مدتوں سے آباد ہیں، لیکن برہمن کے روپ میں چھپے ہوئے ہیں، اسلیئے جو ان میں اصلی برہمن یہودی ہے وہ کبھی بت پرستی نہیں کرتا، لیکن ان بلیو آئیڈز کی اکثریت چونکہ اب لادینیت اور اس سے بڑھ کر صیہونیت زائنزم میں یقین رکھتی ہے لہٰذا مشرکوں کے تمام بت پرستیوں کے ساتھ ساتھ گاؤ پرستی بھی کرتے ہیں، شیطان کی پوجا اور تانترکوں کے آرڈرز/ سلسلوں میں تمام امور آتے ہیں۔ عام ہندو مشرک یہی سمجھتا ہے کہ دھرم ایسا ہی بھگوان نے بنایا ہے حالانکہ ایسا کچھ نہیں، بتوں کی پوجا کو مزید ایکسٹینشن دیکر صیہونی عقائد کو رائج کرکے انہوں نے ہند کے مشرکوں کو کنٹرول کرنے کا ہتھکنڈا دھرم کے نام سے ایجاد کیا۔ اسرائیل میں بھی ہیریڈی فرقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ (کیا ایک نیک یہودی مذہبی قوانین پر عمل نہ کرنے والے یہودی یا کسی غیریہودی کا خون لگوا سکتا ہے”۔

اس سے زیادہ اور دلیل کیا ہوگی ان کی ذہنیت کی کہ یہ لوگ خودساختہ لغو رسومات کے نازی اثر سے پیدا ہوئے اور آج تک دنیا میں فساد پھیلانے کا موجب بنے ہوئے ہیں۔ پھر جب دیکھا کہ یہودیوں / صیہونیوں کو خون یا دیگر جسمانی اعضاء فقط غیریہودیوں ہی سے مل سکتے ہیں تو ہلاکا میں حسب خواہش تشریح کےنام سے ترمیم کردی گئی اور اس کا ثبوت ربی ایلیاہو تھا جو غیریہودیوں کے خون لینے کو مکمل طور پر ممنوع قرار نہیں دیتا۔ لاتعداد غیرہیریڈی ربی بھی کسی یہودی کی جان بچانے کیلئے کسی غیر یہودی کا کوئی عضو اسے لگانے کی اجازت دیتے ہیں تاہم وہ کسی یہودی کا کوئی عضو کسی غیر یہودی کو لگانے کی مخالفت کرتے ہیں۔

اسی کو مزید تشریح کے ساتھ ہم منو دھرم شاسترا کے متعدد قوانین میں دیکھ سکتے ہیں جہاں پر برہمن کیلئے ایک سزا ہے جبکہ اسی جرم کی سزا غیربرہمن یا کمتر جاتی والوں کیلئے دگنی بلکہ سزائے موت تک رکھی گئی ہے۔ جہاں صیہونیوں نے “گوئیم / جینٹائل” کا نظریہ گڑھ لیا وہی نظریہ ان کالے یہودیوں نے “چھوت چھات/ شودر/ نیچ ذات/ اَن ٹچ ایبلز” کے نام سے اس دور میں بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ اسی لیئے راقم الحروف ہندوازم کو یہودیوں کی کبالا کی صیہونی پیداوار کا دھرم سمجھتا ہے۔ جس میں بہت سی آموزش بلاشبہ پہلے سے جاری تھیں لیکن ان کو بطور عملی انہوں نے نافذ کیا۔ مکمل طور پر پڑھنے کیلئے 8ویں باب جو قانون سے متعلق ہے منو دھرم شاسترا میں، یہ دوغلہ پن پڑھ سکتے ہیں۔ خاص کر ادھیائے 360 تا 379 جہاں پر مختلف جرائم اور انکی سزاؤں کا ذکر ہے۔

الزام: اسرائیلیوں پر دوسرےممالک میں بہت ظلم ہوا اسوجہ سے انہیں فلسطین میں آباد کرنا پڑا۔

یہ الزام سراسر فریب اور جھوٹ پر مبنی ہے فی الواقعہ ایسی کوئی بات نہ ہوئی ہے اور نہ تاریخ اس کی شاہد ہے۔ البتہ جہاں جہاں یہودیت نے جدید دور میں صیہونیت اور ہرزل کی پیروی کی ہے وہیں خود یہود کو مروانے کا انتظام بھی انہیں مغربی صیہونیوں نے کیا۔ ماضی میں ہٹلر کے ذریعے، پھر میسولینی کے ذریعے، پھر انقلاب روس کے ذریعے، اور اس کا ثبوت اسرائیل شحاک اور نارٹن میزونسکی اپنی کتاب (فنڈیمنٹل ازم ان اسرائیل) میں تیسرے باب میں لکھتے ہیں (عراقی یہودیوں سے نقل مکانی کروانے کیلئے اسرائیلی حکومت نے عراقی حکومت کو رشوت دی کہ وہ عراقی یہودیوں کی جائیدادیں ضبط کرلے اور ان کی شہریت ختم کردے

یعنی جب وہ عراق میں رشوت دے سکتے تھے تو لامحالہ ہر جگہ دے سکتے ہیں، اس لیئے یہ الزام درحقیقت جھوٹ کا پلندہ ہے اور اسکی مزید تاریخ گواہی یہ ہے کہ ہٹلر کو پیسہ دینے والا ایشمایل روتھس چائلڈ کا مشہور بینکر خاندان تھا۔ جنہوں نے عالمی معاشی اجارہ داری قائم کرنے کی غرض سے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں دونوں طرف کی پارٹیوں کو فنڈز مہیا کیئے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔