Tag Archives: Shahood

Linguistics of word al-Shahid in Sharia (Ur/En/Ar)

Sharia meaning of Word Shahid – Shaheed!

[taken from research work of Br. Majzoob al -Qadri Admin 1]

Where a person is, there he is Hadhir in that place, as far as he can see, hear he is Nadhir that far. Let me explain how we believe Prophet sallalahu alayhi was’sallam is Hadhir. Imagen a candle lit in a dark room, you can take the candle any where in the room yet its light will still illuminate the room. Candle being body Prophet (sallalahu alayhi was’sallam) and light of candle being Nadhir. Prophet (sallalahu alayhi was’sallam) can go any where with his body but his quwwa of nadhir encampasses the actions of Jin and mankind. He can be in Pakistan and still see the actions mankind, he can be England and he will still see the actions of mankind, where he is Hadhir does not effect his ability of Nadhir. He can be anywhere yet he will see and hear the actions of mankind because he was sent as a Witness upon the actions of mankind. Therefore Allah (subhana wa ta’ala) will ensure that his Prophet is seeing, hearing the actions of mankind, Jinn.

In short if question was: do you mean by the words ” move from place to place ” that Prophet(saw) can be hazirat different places at different times and is not hazir all the time at all the places? Then we will say yes, Prophet sallalahu alayhi was’sallam is not Hadhir with his body all the time in all places but he is Hadhir in Madinah ash’shareef in his heavenly grave. What i mean is that Prophet (sallalahu alayhi was’sallam) is not Hadhir in every place, but he can go to any where he wants, in other words he can be Hadhir where ever he wants to be. Just as candle can be Hadhir in any part of the room and move from place to place yet its light still illuminates the room, in other words candles Nadhir ability will still spread in the entire room. You might have heard that Sunni’s believe Prophet (sallalahu alayhi was’sallam) is Hadhir Nadhir every where. Yes we believe he is Nadhir upon actions of jinkind and mankind, but we do not believe he is hadhir in the entire earth in meaning of his body being on all over the earth. We believe he is Hadhir in one place from there seeing, hearing the actions of jinn and mankind. This misconception is partly fault of opponents of Ahle Sunnat, and partly Ahle Sunnat not explaining their point of view properly. Sunni’s say Prophet is Hadhir Nadhir on mankind in meaning of just as the candle is said to be hadhir in the room. Note candle is only in one place yet it is said candle is in the room. Candle does not fill the room but its light fills the room and because of light filling the room its said candle is hadhir (present) in the room. Same way Sunni scholars say Prophet is Hadhir Nadhir upon mankind and Jinnkind. Meaning that He is Hadhir in place but because he can see, hear the actions of jinn and mankind he is said to be Hadhir and Nadhir over them or witness over them.

 

Now the word “Witness” is called “Shahid” in Arabic, a witness is a person who knew a matter personally, its more deliberative way could be say that, person who personally saw and event can gave evidence and be presented as Witness. Such word “shahid” is been used in Quranic verses several times. As you will se in scans presented here, The introduction to hazir and nazir wa also important because of this word which clearly show an attribute gifted by Allah to our blessed Master Muhammad (sal Allaho alehi wasalam). Interested ones can read that article by checking hadhir wa  nadhir’s category list. or click here

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا  

( اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر (ف۱۱۰) اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا (ف۱۱۱)

افراد کلمات القرآن العزیز، میں لغہ کے امام احمد بن فارس اللغوی متوفی 395 ہجری لکھتے ہیں۔

في القران غير القتلي في العزو فهم الذين يشهدونَ علي أمورالناس

In Quran its (Shu’hada) is attribution to the Dead, who understands and witness all matters of the people.” 

And then he has given verses of Quran to show the categories of implementation to this word.

السیرۃ النبویۃ فی فتح الباری ، حافظ ابن حجر عسقلانی (رح) جز الثانی میں ایک حدیث بیان ہوئی ہے۔ کہ جب اُحد کے واقعے کے قریباً چھ ماہ بعد جب دو صحابیوں جن کو اکٹھے دفن کردیا گیا تھا ایک قبر میں نکالا گیا (تبدیلیئ قبر کے لیئے) تو امام ابن حجر کے قول کے مطابق یہ خلاف امر واقعہ لگتا ہے مگر وہ بالکل صحیح وسلامت تھے (یعنی جسم ایسے تھے جیسے ابھی دفن کیئے ہوں)۔ (نوٹ)۔ وہابی خوارج اور مزارات کے دشمنوں نے جب حضرت زُہیر رضی اللہ عنہ کے مزار مبارک کو شہید کیا، تو لوگوں نے دیکھا کہ جسم بالکل صحیح سلامت تھا۔ اور اسی طرح کا ایک واقعہ کتاب عشرہ مبشرہ ص 245 پر تحریری ہے کہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ جو عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہیں روایت کی گئی ہے کہ :۔

شہادت کے بعد آپ کو بصرہ کے قریب دفن کردیا گیا مگر جس مقام پر آپ کی قبر مبارکہ بنی وہ نشیب میں تھا، اس لیئے قبر مبارک کبھی کبھی پانی میں ڈوب جاتی تھی۔ آپ نے ایک شخص کو بار بار متواتر خواب میں آکر اپنی قبر بدلنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس شخص نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اپنا خواب بیان کیا تو آپ نے دس ہزار درہم میں ایک صحابی کا مکان خرید کر اس میں قبر کھودی اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےمقدس جسم کو پرانی قبر سے نکال کر اس قبر میں دفن کردیا۔ کافی مدت گزر جانے کے باوجود آپ کا مقدس جسم سلامت اور بالکل تروتازہ تھا۔

یعنی غور فرمائیں کہ کچی قبر جو پانی میں ڈوبی رہتی تھی ، ایک مدت گزر جانے کے باوجود ایک ولی اور شہید کی لاش خراب نہیں ہوتی تو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام خصوصاً آقائے دوجہان رحمت عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس جسم کو قبر کی مٹی بھلا کیسے خراب کرسکتی ہے؟ ۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ (ان اللہَ حَرَّمَ علی الارضِ اَن تاکل اجساد الانبیاء۔ مشکوٰۃ ص 121)۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے جسموں کو زمین پر حرام فرمادیا ہے۔ کہ زمین ان کو کبھی کھا نہیں سکتی۔

اس طرح اس روایت سے اس مسئلہ پر روشنی پڑتی ہے کہ شہداء کرام اپنے لوازمِ حیات کے ساتھ اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں، کیونکہ اگر وہ زندہ نہ ہوتے تو قبر میں پانی بھر جانے سے ان کو کیا تکلیف ہوتی؟

اسی طرح اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شہداء کرام خواب میں آکر زندوں کو اپنے احوال و کیفیات سے مطلع کرتے رہتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالٰی نے ان کو یہ قدرت عطا فرمائی ہے کہ وہ خواب یا بیداری میں اپنی قبروں سے نکل کر زندوں سے ملاقات اور گفتگو کرسکتے ہیں ۔ اب غور وفکر کریں کہ جب شہیدوں کا یہ حال ہے اور ان کی جسمانی حیات کی یہ شان ہے تو پھر حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام خاص کر حضور سیدنا امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی حیات اور ان کے تصرفات اور ان کے اختیار واقتدار کا کیا عالم ہوگا؟۔

اب دیوبندی مولانا صاحب کی کتاب سے اس چیز کا ثبوت پیش کردیں۔کہ لفظ شاھد دراصل اس کے لیئے ہی بولا جاتا ہے جو کہ حاضر ہو۔ اور ظاہر ہے جو کہ حاضر ہو وہی ناظر بھی ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں ہمارا ٹاپک حاضر ناظر نہیں لیکن چونکہ یہ سب کچھ ریلیٹڈ ہے اس لیے بارہا تذکرہ ہورہا ہے۔ شاھد کا لفظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے قرآن میں آیا ہے اور شاھد وہی ہوتا ہے جس نے آنکھوں سے دیکھا ہو، یعنی حاضر ہو وقوعہ کے وقت۔

2

العرب تخاتب الشاهد ثم تحول الخطاب الي الغائب وذلك كقوله
فخطاب ثم قال أقوت وفي كتاب الله

تحويل الخطاب من الغائب الي الشاهد

وقد يجعلون خطاب الغائب للشاهد قال الهذلي

Ibne Faras Lughawi writes, there are few ways that this word is prescribed in Quran and Arabic linguistics; he is explaining that,

a) Arabs speak to the (al-Shahid) (the present / witness – who see the matter with eyes) and then turn towards linguistic of saying towards (al-Ghaib) the (un-present) in discourse …… (and then explains a stanza see the scan).”

b) then he explain another ways to how to convert the speech of absent into present (tense-wise) witness.further through huzaili another example is been said. see the scans.

So this proves that al-Shahid in every way is used for Hazir (Present) and Present always know what happens to such and such event.

حیات الشہداء

عبداللہ بن ثامر کے واقعہ کی تصدیق اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی کرتا ہے ۔

ترجمہ: اور ہرگز یہ خیال نہ کرو کہ وہ جو قتل کئے گئے ہیں اللہ کی راہ میں وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں۔ آل عمران 169

جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے نہر کھدوائی تو شہدائے احد کے اجسام کو ان کی قبور سے نکالا گیا ۔ مدت دراز گزارنے کے باوجود ان کے اجسام میں کوئی تغیر(تبدیلی) رونما نہیں ہوا تھا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاؤں مبارک پر کلہاڑا لگ گیا جہاں سے خون بہنے لگا۔ اسی طرح حضرت ابوجابر ، حضرت عبداللہ بن حرام، حضرت عمروبن جموح اور حضرت طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے اجسام مبارک میں بھی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی۔ ان کی بیٹی عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خواب میں دیکھا انہوں نے انہیں حکم فرمایا کہ وہ ان کے جسم اطہر کو کسی اور جگہ منتقل کردیں۔ جب اس مقصد کے لیئے ان کی قبر کھودی گئی تو ان کا جسم بالکل سلامت تھا حالانکہ اس وقت غزوہ احد کو تیس سال گزر چکے تھے۔ یہ تمام واقعات سچے ہیں اور ابن قتیبہ نے انہیں المعارف میں ذکر کیا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔

ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء۔

اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام قراردیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام کھائے۔

سلیمان بن اشعث نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ، ابوجعفر الدودمی نے اپنی کتاب میں اس حدیث کو قدرے زیادتی کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

وہاں یہ روایت اسطرح ہے۔

ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء والشھداء والعلماء والمؤذنین۔

اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء شہدا، علماء اور اذان دینے والوں کے اجسام کو کھائے۔

لیکن یہ زیادتی (مسند) میں نہیں ہے جبکہ امام العدودی بھی ثقہ اور اہل علم ہیں۔ مسند میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا

الانبیاء احیاء یصلون فی قبورھم

انبیائے کرام علیہم السلام زندہ ہیں وہ اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں۔

حضرت ثابت بنانی رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ انہیں دفن کرنے کے بعد قبر میں تلاش کیا گیا لیکن وہ نہ مل سکے۔ جب یہ حیرت انگیز واقعہ ان کے لخت ِ جگر سے بیان کیا گیا تو انہوں نے کہا (وہ تو اپنی قبرِ انور میں نماز بھی پڑھتے ہیں لیکن تم انہیں نہ دیکھ سکے)۔ جب وہ نمازِ تہجد کے بعد دعا مانگتے تو یہ عرض کرتے تھے کہ مولا! مجھے ان بندوں میں سے کردے جو موت کے بعد اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں۔ صحیح البخاری میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

میں حضرت موسی علیہ السلام کی قبرانور کے پاس سے گزرا وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔

حوالہ

الروض الانف في تفسير السيرۀ النبويۀ جلد ۱، ذکر سرد النسب الذکي. (ص) ۹۶.

حديث، موسي، سند صحيح اخرجه مسلم في الايمان ۲۷۶ وفي الفضائل ۱۶۵
النسائي جلد ۳/ ۲۱۶

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء اور آپ کی صفات ِ مبارکہ؛۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی (یا ایھا النبی انا ارسلنک شاھداً ومبشراً ونذیراً) تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہما کو بلایا آپ ان دونوں کو یمن کی طرف بھیجنے کا حکم دے چکے تھے، آپ نے فرمایا تم دونوں جا کر لوگوں کو بشارت دیینا، اور ان کو متنفر نہ کرنا، اور آسان احکام بیان کرنا اور مشکل احکام نہ بیان کرنا، کیونکہ مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے : اے نبی ! ہم نے آپ کو آپ کی امت کے اوپر شاھد بنا کر بھیجا ہے، اور جنت کی بشارت دینے والا اور دوزخ سے ڈرانے والا اور لاالٰہ الااللہ کی دعوت دینے والا اور قرآن کی روشنی دینے والا چراغ بنا کر۔ (المعجم الکبیر جلد ۱۱ ص ۱۱۸۴۱ دار الاحیاء التراث العربی بیروت)۔

عطا بن یسار بیان کرتے ہیں کہ میری حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا مجھے بتائیے کہ تورات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی کیا صفات ہیں؟۔ انہوں نے کہا تورات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض وہ صفات ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے: یا ایھا النبی انا ارسلنٰک شاھداً ومبشراً ونذیراً (الاحزاب ۴۵ اور آپ کو امیین کی پناہ بنایا، آپ میرے بندے اور رسول ہیں، میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے آپ بدمزاج اور سخت طبیعت نہیں ہیں اور بازاروں میں شور نہیں کرتے اور نہ برائی کا جواب برائی سے دیتے ہیں، لیکن آپ معاف کردیتے ہیں اور بخش دیتے ہیں، اور اللہ اس وقت تک آپ کی روح کو قبض نہیں کرے گاجب تک آپ کے سبب سے ٹیڑھی قوم کو سیدھا نہیں کردیتا بایں طور کہ وہ سب کہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، اور جب تک آپ کے سبب سے اندھی آنکھوں اور بند کانوں اور مقفل دلوں کو کھول نہیں دیتا۔

حوالہ؛ صحیح البخاری رقم الحدیث ۴۸۳۸/۲۱۲۵ دارارقم بیروت

علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چھ اسماء ہیں، شاھد، مبشر، نذیر، داعی الی اللہ، سراج اور منیر۔

حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پانچ اسماء ہیں؛ میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی (شرک اور کفر کو مٹانے والا) ہوں، اللہ میرے سبب سے کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں، میرے قدموں میں لوگوں کا حشر کیا جائے گا اور مین عاقب ہوں (سب نبیوں کےبعد آنے والا)۔

حوالہ۔ صحیح البخاری رقم الحدیث ۔ ۳۵۳۲ ، صحيح مسلم رقم الحديث ۲۳۵۴

اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام رؤف و رحیم رکھا ہے۔ (التوبہ ۱۲۸ )۔

علامہ ابوبکر بن العربی نے احکام القرآن میں الاحزاب ۱۳ کی تفسیر میں آپ کے سڑسٹھ (۶۷) اسماء گرامی ذکر کیئے ہیں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سو اسی اسماء ہیں۔

الجامع لاحکام القرآن ، جز ۱۴ ص ۱۸۲ دارالفکر بيروت ۱۴۱۵ ھ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمت کے حق میں شاھد ہونا۔

اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شاہد فرمایا ہے، اور شاہد کا معنی ہے گواہی دینے والا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شاہد ہونے کے چار محمل ہیں، ایک محمل یہ ہے کہ آپ اپنی اُمت کے حق میں قیامت کے دن گواہی دیں گے، دوسرا یہ ہے کہ آپ لاالٰہ الااللہ کی گواہی دینے والے ہیں اور تیسرا یہ کہ آپ دنیامیں امور آخرت کی گواہی دیں گے اور چوتھا یہ کہ آپ اعمالِ امت پر شاھد ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنی اُمت کے حق میں گواہی دیں گے اس کا ذکر اس آیت میں ہے ؛

ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہتریں امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور یہ رسول تمہارے حق میں گواہ ہوجائیں۔ (البقرہ: ۱۴۳ )۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن ایک نبی آئے گااور اس کے ساتھ ایک شخص ہوگا،اور ایک نبی آئے گا اور اسکے ساتھ دو شخص ہوں گے، اور ایک نبی آئے گا اسکے ساتھ زیادہ لوگ ہوں گے، اس سے کہاجائے گا کیا تم نے اپنی قوم کو تبلیغ کی تھی؟ وہ کہے گا ہاں! پھر اسکی قوم کو بلایا جائےگا اور اس سے پوچھا جائے گاکیا انہوں نے تم کو تبلیغ کی تھی، وہ کہیں گے نہیں! پھر اُس نبی سے کہا جائے گاتمہارے حق میں کون گواہی دے گا؟ وہ کہیں گے (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت، پھر (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو بلایا جائے گا، اور کہاجائےگا کہ کیا انہوں نے تبلیغ کی تھی؟ وہ کہیں گے ہاں! پھر کہاجائے گا تم کو اس کا کیسے علم ہوا؟ وہ کہیں گے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ خبر دی تھی کہ (سب) رسولوں نے تبلیغ کی ہے، اور یہ اس آیت کی تفسیر ہے۔

حوالہ؛ سنن کبریٰ للنسائی ج ۶ ص ۲۹۲ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۴۱۱ ھ

اس آیت اور اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام امتوں کے احوال پر مطلع ہیں اور آپ اپنی امت کے اعمال کا بھی مشاہدہ فرماتے ہیں کیونکہ آپ اپنی امت کی گواہی دیں گے اور گواہی میں اصل یہ ہے کہ مشاہدہ کرکے اور دیکھ کر گواہی دی جائے، اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے۔

حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ۷۷۴ ھ بیان فرماتے ہیں؛۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے کچھ فرشتے سیاحت کرنے والے ہیں وہ مجھے امت کا سلام پہنچاتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری حیات تمہارے لیئے بہتر ہے تم باتیں کرتے ہو اور تمہارے لیئے حدیث بیان کی جاتی ہے اور میری وفات (بھی) تمہارے لیئے بہتر ہے ، تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیئے جاتے ہیں ۔ میں جو نیک عمل دیکھتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں، اور میں جو برا عمل دیکھتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں۔

حوالہ۔ البدایہ والنہایہ جلد ۴ ص ۲۵۷ طبع جدید ، دارالفکر بیروت ۱۴۱۹ ھ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کی توحید اور ذات وصفات پر شاھد ہونا۔

شاہد ہونے کا دوسرا محمل یہ ہے کہ ہمارے نبی سیدنا محمد مصطفیٰ علیہ التحیہ والثناء ، اللہ تعالیٰ کی توحید پر اور (لاالٰہ الااللہ) پر شاہد ہیں اور آپ نے امت کو بھی یہ حکم دیا ہے کہ اللہ کی توحید اور اسکی ذات وصفات کی شہادت دیں۔ اور آپ جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اسکی ذات وصفات کی شہادت دیتے ہیں یہ آپ کی خصوصیت نہیں بلکہ تمام انبیاء اور رسل نے اور ان کی امتوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اسکی ذات اور صفات کی شہادت دی ہے، اور آپ کی اور باقی نبیوں اور رسولوں کی شہادت میں فرق یہ ہے کہ تمام نبیوں اور رسولوں نے اللہ کی توحید اور اسکی ذات وصفات کی شہادت فرشتوں سے سن کر دی ہے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اسکی ذات وصفات کی شہادت دیکھ کر اور مشاہدہ کرکے دی ہے، بلکہ ساری کائنات اللہ کے واحد ہونے کی شہادت سن کردیتی ہے اور آپ تنہا اور واحد ایسے شاھد ہیں جس نے اللہ کو دیکھ کر اس کے واحد ہونے کی شہادت دی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں میں صرف آپ کو (شاھد) فرمایا ہے ۔ آپ نے جس چیز کی بھی شہادت دی ہے وہ دیکھ کر اور مشاہدہ فرما کرشہادت دی ہے، کرسی اور عرش ہو یا لوح وقلم ہو، فرشتے ہوں یا جنات، جنت ہو یا دوزخ ہو، آپ نے ہرچیز کو دیکھ کر اور مشاہدہ کرکے شہادت دی ہے اور جیسے آپ شاہد ہیں کائنات میں ایسا کوئی دوسرا شاہد نہیں ہے۔

امام رازی نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توحیدکا مدعی نہیں بنایا کیونکہ جس چیز کا دعویٰ کیا جاتا ہے وہ خلاف ظاہر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید تو اس کائنات میں ظاہر ہے بلکہ اظہر من الشمس ہے۔(تفسیر کبیر جلد 9 ص 173) میں کہتا ہوں کہ اگر توحید ظاہر اور اظہر من الشمس ہوتی تو ساری دنیا اس کی منکر کیوں ہوتی اور اسکو منوانے کے لیے اتنے نبیوں اور رسولوں کو کیوں مبعوث کیا جاتا اور اس قدر دلائل اور معجزات کیوں پیش کیئے جاتے ! حق یہ ہے کہ اس کی توحید مخفی تھی اس کو نبیوں اور رسولوں نے ظاہر کیا اور سب سے زیادہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی توحید کو آشکارا کیا، اللہ تو ہمیشہ سے واحد تھا لیکن اس کی توحید کے اتنے ماننے والے نہ تھے آپ نے اللہ کے واحد ہونے کی شہادت دی تو کائنات کی ہرحقیقت نے اللہ کو واحد کہا۔ آپ نے اللہ کی توحید کی شہادت دی اور اللہ نے آپ کو رسالت کی شہادت دی سو فرمایا؛۔

ترجمہ؛ تم (بھی ان کی رسالت کے اقرار پر) گواہ ہوجاؤ اور میں (بھی) تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ (آل عمران۔ ۸۱ )۔

ترجمہ ؛ اور اللہ خوب جانتا ہے کہ بے شک آپ ضرور اس کے رسول ہیں۔ (المنافقون۔۱)۔

وشاھدِِ ومشھودِِ (البروج۔ 3)۔ شاھد کی قسم اور مشہود کی قسم !۔ آپ اللہ کی توحید پر شاہد ہیں اور اللہ آپ کی رسالت پر شاہد ہے ۔ سو آپ شاہد بھی ہیں اور مشہود بھی ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا میں امورِ آخرت پر شاہد ہونا۔

اور شاہد کا تیسرا محمل یہ ہے کہ آپ دنیا میں امور آخرت پر شاہد ہیں آپ جنت کے اور دوزک کے شاہد ہیں اور میزان اور صراط کے شاہد ہیں، آپ نے جس کے جنتی ہونے کی شہادت دی اس پر جنت واجب ہوگئی اور جس کے دوزخی ہونے کی شہادت دی اس پر دوزخ واجب ہوگئی، آپ نے دس صحابہ کا نام لے کرفرمایا کہ وہ جنت میں ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ حدیث ہے؛۔

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکر جنت میں ہیں، عمر جنت میں ہیں، عثمان جنت میں ہیں، علی جنت میں ہیں، طلحہ جنت میں ہیں، زبیر جنت میں ہیں، عبدالرحمٰن بن عوف جنت میں ہیں، سعد بن ابی وقاص جنت میں ہیں، سعید بن زید جنت میں ہیں، ابو عبیدہ بن الجراح جنت میں ہیں۔

سنن الترمذی رقم الحدیث ۔ ۳۷۴۷ مسند احمد جلد ۱ ص ۱۹۳، مسند ابويعلي رقم الحديث ۸۳۵، صحيح ابن حبان رقم الحديث، ۷۰۰۲

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے سنا ہے وہ فرمارہے ہیں کہ طلحہ اور زبیر دونوں جنت میں میرے پڑوس میں ہوں گے۔

سنن الترمذی رقم الحدیث ۔ ۳۷۴۱، المستدرک جلد ۳ ص ۳۶۵ . کتاب الضعفا للعقيلي جلد ۴ ص ۳۹۴ الکامل لابن عدي جلد ۷ . ص ۲۴۸۹

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طلحہ نے اپنے لیئے جنت کو واجب کرلیا۔ سنن الترمذی رقم الحدیث 3738۔ 1692

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص شہید کو زمین پر چلتے پھرتے دیکھنے میں خوش ہو وہ طلحہ بن عبید اللہ کو دیکھ لے۔

سنن الترمذی 3739۔ سنن ابن ماجہ 145، حلیۃ الاولیاء جلد 3 ص 100۔

اسی طرح جن لوگوں کے متعلق ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزخی ہونے کی شہادت دی ان کا دوزخی ہونا واجب ہے، اس سلسلہ میں یہ احادیث ہیں:۔

حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے دیکھا جہنم کی بعض آگ بعض کو کھا رہی تھی، اور میں نے عمرو بن لحی کو دیکھا وہ دوزخ میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہاتھا۔ اور یہ وہ پہلا شخص ہے جس نے بتوں کے لیئے اونٹنیوں کو نامزد کیا تھا۔

صحیح البخاری رقم الحدیث 4624 ، صحیح مسلم رقم الحدیث بلاتکرار؛ 901 رقم الحدیث المسلسل 2057۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ایک طویل حدیث کے آخر میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے دوزخ میں ایک ڈھال والے شخص کو دیکھا جو اپنی ڈھال سے حجاج کے کپڑے چرایا کرتا تھا اگر کسی کو پتا چل جاتا تو وہ کہتا یہ کپڑا میری ڈھال میں اٹک گیا تھا، اور جب وہ شخص غافل ہوتا تو وہ کپڑا لے جاتا، اور میں نے دوزخ میں ایک عورت کو دیکھا جس نے بلی کو باندھ کررکھا تھا، اس کو کچھ کھانے کو دیا اور نہ اس کو آزاد کیا کہ وہ زمین پر پڑی ہوئی کوئی چیز کھا لیتی حتیٰ کہ وہ بلی بھوک سے مرگئی۔

صحیح مسلم رقم الحدیث بلاتکرار 904 رقم الحدیث المسلسل ، 2067 سنن ابوداؤد رقم الحدیث 1178

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعمال امت پر شاہد ہونا

اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاہد ہونے کا چوتھا محمل ہے:۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛۔ اللہ کے کچھ فرشتے سیاحت کرتے ہیں جو میری امت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری زندگی تمہارے لیئے بہتر ہے تم حدیث بیان کرتے ہو اور تمہارے لیئے حدیث بیان کی جاتی ہے اور وفات (بھی) تمہارے لیئے بہتر ہے مجھ پر تمہارے اعمال پیش کیئے جاتے ہیں جو نیک عمل دیکھتا ہوں ان پر اللہ کی حمد کرتا ہوں اور میں جو برے عمل دیکھتا ہوں ان پر اللہ سے استغفار کرتا ہوں۔

مسند البزار رقم الحديث ۸۴۵.حافظ الهيثمي نے فرمايا اسکي سند درست هے،مسند الزوائد جلد ۹ ص ۲۴

علامه سيد محمود آلوسي حنفي متوفي ۱۲۷۰ ھ لکھتے ہیں:۔

اگر یہ کہا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانہ کے امتیوں کے اعمال پر شاہد تھے تو پھر تویہ بات بالکل واضح ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ بعد کے امتیوں کے اعمال پر بھی شاہد تھے تو اس میں ییہ اشکال ہے کہ حضرت ابوبکر ، حضرت انس ، حضرت حذیفہ ، حضرت سمرہ اور حضرت ابوبردہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ میرے اصحاب میں سے کچھ لوگ حوض پر وارد ہوں گے ، حتیٰ کہ میں ان کو دیکھ کر اور پہچان کر کہوں گا اے رب میرے میرے اصحاب! پس مجھ سے کہا جائے گا آپ ازخود نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا نئے کام نکالے ہیں! ہاں اسکے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ کو یہ توعلم تھا کہ آپ کے بعد آپ کی امت کے لوگ کیا نیک کام کریں گے اور کیا برے کام کریں گے ، لیکن آپ کو ان معیّن لوگوں کا علم نہیں تھا کہ کون نیک کام کرنے والے ہیں اور کون برے کام کرنے والے ہیں تاکہ اس حدیث اور مسند بزار کی عرض اعمال والی حدیث میں تطبیق ہوجائے، اس کا دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ آپ کو نیکی کرنے والے اور گناہ کرنے والے معین لوگوں کا بھی علم تھا لیکن قیامت کے دن آپ بھول گئے، اور بعض صوفیاء کرام نے یہ اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بندوں کے اعمال پر مطلع فرما دیا تھا۔ اور آپ نے ان کے اعمال کو دیکھات ھا اس لیئے آپ کو شاہد فرمایا۔

مولانا جلال الدین رومی قدس سرہ العزیز نے مثنوی میں فرمایا۔

درنظر بودش مقامات العباد
زان سبب نامش خدا شاہد نہاد

آپ کی نظر میں بندوں کے مقامات تھے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام شاہد رکھا۔

روح المعانی جز 22 ص 65 مطبوعہ دارالفکر بیروت۔

ہمارے نزدیک اس اشکال کا صحیح جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں علم کی نفی نہیں ہے درایت کی نفی ہے کیونکہ فرشتے یہ نہیں کہیں گے (انک لاتعلم) بلکہ یہ کہیں گے (انک لاتدری) ، اور درایت کا معنی ہے کسی چیز کو اپنی عقل اور قیاس سے جاننا یعنی آپ ان لوگوں کے مرتد ہونے کو اپنی عقل اور اپنے قیاس سے نہیں جانتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم سے جانتے ہیں، باقی رہا یہ کہ پھر آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ یہ میرے اصحاب ہیں اسکا جواب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انہیں صحابی فرمانا عدم علم کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس لیئے تھا کہ پہلے ان کو یہ امید ہو کہ ان کو پانی ملے گا اور پھر جب ان کو حوض سے دور کیا جائے گا اور ان کی امید ٹوٹے گی تو ان کو زیادہ عذاب ہوگا، دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اصحابی سے پہلے ہمزہ استفہام کا محذوف ہو، یعنی کیا یہ میرے صحابی ہیں؟ جن کے چہرے سیاہ، اعمال نامے بائیں ہاتھ میں، آنکھیں نیلی، چہرے تاریک اور مرجھائے ہوئے ہیں، یہ میرے صحابہ ہیں؟ میرے اصحاب کے تو چہرے اور ہاتھ پیر سفید اور روشن ہیں ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں ہیں اور ان کے چہرے کھلے ہوئے اور شاداب ہیں۔ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں مومنوں اور کافروں کی جو علامتیں بیان کی گئی ہیں کہ ان کے چہرے سفید ہوں گے اور اعمال نامے دائیں ہاتھ میں ہوں گے اور کافروں کے چہرے سیاہ اور اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھ میں ہوں گے ان علامتوں سے میدان محشر میں موجود ہرشخص کو علم ہوگا کہ مومن کون ہے اور کافر کون ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم نہ ہو کہ کون آپ کا صحابی ہے اور کون نہیں ہے۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دنیا میں امت کے اعمال پیش کیئے جاتے ہیں سو آپ کو علم تھا کہ کون ایمان پر قائم رہا اور کون مرتد ہوگیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ تو دنیا میں بیان فرما رہے ہیں کہ میرے حوض پر ایسے ایسے لوگ آئیں گے سو آخرت کا علم تو دور کی بات ہے آپ نے دنیا میں ہی اپنے علم کی وسعت کا اظہار فرمادیا ہے۔

Some more scans and references on this issue which shows the same meanings which we already explained.

The most famous Imam of Lughat al Arab – Imam Syed Murtaza al Hussaini al Zubaidi has written a great details in his most famous book of Linguistics i.e., Taj-ul-Uroos. See the scans

More scans Click here

Kitab al tamreen by Sheikh Allama Tahir al Jazairi

In Mojamol Qur’an there is also a great detail in Urdu language , showing meaning of this word (Shahid) and (related words).

Mukhtar us Sihah (Arabic _ Urdu)

Qamoos al Quran by Doctor Abdullah Abbas al Nidawi from Jamia Ummul Qura Makkah al Mukkaramah, Urdu translation by Prof, abdul razzaq . Published by Wahhabi Publishing Agency maktaba Darul Isha’at Pakistan – Ksa.

Abil Hussain Ahmed bin faras bin zakariyah al lughawi in his Mujmalol lugha.

Tafsir Imam al Razi (rta)

Shuhada is the Plural of (Shaheed) and it means (Hazir), who can give shahadah (witness to). P 118 first publication addar al bahiya Egypt.

More scans will be added soon, special thanks to brother Imran Akbar Malik for providing scans.

(Scans Folder)

Updated by Admin: Thur-April 30 – 2015

Rough Translation:

Al Shahadat means affirmitive fact about a happening (means eye witness-ing) to convince the other person to it. and Sahadata by Prophet Sal Allaho alehi wasalam is for (the purpose to) make the people arrived to the point of certainty which relates them (as prove) the existence of God and reverence to His Al-Mightyness, Attributes, and contiuation (in series) of revelations and prophecy, and (witness upon) the conseque reward and pusnishment and the statement of the fact of reward and punishment and proving the existence of the world (of retreating, reurrence, coming back to the same position), statement of (world of) Spirit and the Unseen world. (alam-al-Ghaib)”

In Short, this means that Shahadat is (Witnessing, affidaviting, attesting, giving evidence statement, or testomonial to some event, specially eye witness) thus, (Sahadat) is a formal document asserting a fact, One meaning of Sahadat is also martyrdom (which we explained on blog in the article of Sahadat), another form of Sahadat is a declaration of faith. Thus, Prophet is a person who has witness all those things (Which are explained in R-Translation) because he has seen all things by the Grace of Almighty Allah not only this world, but the Worlds, which we don’t know, He has given him and make him a witness upon His creations and makhlooqat, that means for those worlds, too, Prophet alehisalam is witness because he has seen that Alam al Ghaib (The world of Ghaib). And again, because Shahadat can be given by only that one who has been an EYE-WITNESS to the event. Thus this also proves that (he) Sal Allaho Alehi Wasalam is Hazir and Nazir because, meaning of Shahaada as we explained before is, witness.

Rehmatalillalameen-Qadi-M-Suleman-Salmaan-al-Mansurpuri—Darusalam-Publishing-Riyadh-Ksa-P 552

شہادۃ سے مراد ہے کسی امر کے بارے میں دوسرے کو باور کروانے کے لیئے گواہی دینا، اور شہادۃ برائے رسول سے مراد یہ ہے کہ وہ خدا کی  موجودیت تک لوگوں کے قبول کی رسائی کے لیئے  یعنی آمادگی ء حق کی خاطر اور اسکی ذات صفات اور تنزیہ کے (بارے مٰیں آگہاہی کے واسطے) بذریعہ وحی اور پروفیسی (یعنی مستقبل کے واقعات کا بتانا) پر گواہی کو کہتے ہیں۔، اور یہ کہ عذاب و ثواب کے بارے میں اور اس بارے میں کے ثواب و عذاب ایک (آنکھوں دیکھی) حقیقت ہے جو کہ اللہ کی ابدیت (ومظاہر) کابین ثبوت ہے، اور اس پر ثبوت ہے کہ ایسی دنیا حقیقت میں موجود ہیں، اور پلٹ کر وہیں جانا ہے، اور عالم الارواح کا ،اور غیب کی دنیا کا اثبات ہو۔

تشریح یعنی یہاں یہ معلوم ہوا کہ شہادت چونکہ گواہی دینا ہے اور گواہی وہی دیتا ہے جس نے امر واقعہ اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھا ہواور ایسے کسی بھی امر سے باخبر ہو۔ اب چونکہ قرآن پاک میں حضور سید عالمیان کو غیب کی دنیا اور مافیہا کی ہر اس بات کا علم اللہ کی منجانب سے عطا کیا گیا ہے جو کہ ہمارے لیئے غیب کہلاتی ہے کیونکہ ہم نہیں دیکھ سکتے۔ اور لفظ شہد اور شھداء پر ہم نے پہلے ہی تفصیل اوپر بیان کردی ہے لہٰذا شاھد وہی ہوتا ہے جو حاضر و ناظر ہو جو مشاہدہ کرچکا ہو واقعہ کا، اب چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیئے اللہ نے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور اللہ کے لشکروں کی اصل تعداد تو ہی جانتا ہے ۔ ہم جس دنیا کو تصور بھی نہیں کرسکتے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اُن کے بھی آقا ہیں۔ اسی لیئے رب نے خود کو رب العالمین فرمایا اور آپ علیہ الصلوٰہ والسلام کو رحمت اللعالمین۔

 حوالہ؛ رحمتہ اللعالمین، از قاضی محمد سلیمان سلمان المنصورپوری ، مکتبۃ دارالسلام ، ریاض صفحہ  ۵۵۲

Scan 

Update Ends.