Iblees ky Batil Qiyas par Munkarin e Qiyas ka Ta’qub wa Jawab


ابلیس کے باطل قیاس کی بنا پر منکرین قیاس کے دلائل اور انکا تجزیہ

امام ابو جعفر محمد بن جریر الطبری اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں:
ابن سیرین نے کہا سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کیا تھا اور سورج اور چاند کی پرستش صرف قیاس کی وجہ سے کی گئی ہے۔
حسن بصری نے کہا سب سے پہلے جس نے قیاس کیا تھا، وہ ابلیس ہے
حوالہ؛ جامع البیان جز ۸ ص ۱۷۳ دارالفکر بیروت، سنن دارمی ج ۱ رقم الحدیث ۱۹۱ ط بیروت
حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصبہانی پنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں:
عمرو بن جمیع بیان کرتے ہیں کہ میں ابن ابی لیلیٰ اور (امام) ابوحنیفہؒ، حضرت جعفر بن محمد کی خدمت میں حاظر ہوئے اور عبداللہ بن شبرمہ نے کہا میں اور (امام ابوحنیفہ) حضرت جعفر بن محمد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت جعفر بن محمد نے ابن ابی لیلیٰ سے پوچھا۔ تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ وہ شخص ہے جس کو امورِ دین میں بہت مہارت اور بصیرت حاصل ہے۔ حضرت جعفر نے کہا: شاید یہ دین کے معاملات میں اپنی رائے سے قیاس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا! ہاں!حضرت جعفر نے امام ابوحنیفہ سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟۔ انہوں نے کہا نعمان (الی قولہ) حضرت جعفر نے امام ابوحنیفہ سے کہا: اے نعمان! مجھے میرے والد نے میرے داد سے یہ حدیث روایت کی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے سب سے پہلے دین کے معاملہ میں اپنی رائے سے قیاس کیا، وہ ابلیس تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا: (حضرت) آدم کو سجدہ کرو، اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں،تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسکو مٹی سے پیدا کیا ہے، سو جس نے دین میں اپنی رائے سے قیاس کیا، اس کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ابلیس کے ساتھ اکٹھا کرے گا۔ ابن شبرمہ کی روایت میں یہ اضافہ ہے، پھر حضرت جعفر نےا ن سے پوچھا: قتلِ نفس اور زنا میں کونسا گناہ زیادہ بڑا ہے؟۔ امام ابوحنیفہ نے کہا: قتل نفس۔ حضرت جعفر نے کہا: اللہ تعالیٰ نے قتل نفس کے ثبوت کیلئے دو گواہ کافی قرار دیئے۔ پھر زنا کے ثبوت کیلئے چار مردوں کی گواہی کیوں ضروری ہے؟ پھر پوچھا: نماز اور روزے میں کونسا فرض زیادہ اہم ہے؟۔ امام ابوحنیفہ نے کہا نماز: حضرت جعفر نے کہا: پھر کیا وجہ ہے کہ حائض عورت صرف روزے کی قضا کرتی ہے اور نماز کی قضا کا حکم نہیں ہے؟۔ پھر کہا: تمہارے قیاس کرنے پر افسوس ہے! اللہ سے ڈرو اور دین مین اپنی رائے سے قیاس نہ کرو۔
حوالہ: حلیۃ الاولیاٗ ج ۳ ص ۱۹۶،۱۹۷ دارالکتاب العربی بیروت،ایضاً ج ۳ رقم الحدیث ۳۷۹۷ دارالکتب العلمیۃ بیروت
حضرت جعفر بن محمد نے نبی ﷺ سے جو حدیث روایت کی ہے، اس کے متعلق قاضی محمد بن علی بن محمد شوکانی اور نواب صدیق حسن قنوجی بھوپالی لکھتے ہیں؛
اس حدیث کی سند میں غور کرنا چاہیئے۔ میرا گمان یہ ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نہیں ہے اور یہ حدیث کلام نبوت کے مشابہ نہیں ہے۔
حوالہ: فتح القدیر ج ۲ ص ۱۹۳ ط، عالم الکتب، فتح البیان ج ۳ ص ۲۶۲ المطبعۃ الکبری بولاق مصر۔ فتح القدیر ج ۲ ص ۴۶۷ دارالمعرفۃ بیروت لبنان

اس حدیث کی سند میں ایک روای ہے۔ سعید بن عنبسہ۔ اس کے متعلق حافظ شمس الدین محمد بن احمد ذہبیؒ لکھتے ہیں؛
یحییٰ نے کہا: یہ کذاب ہے اور ابوحاتم نے کہا: یہ صادق نہیں۔ اس نام کا ایک دوسرا شخص ہے وہ مجہول ہے۔ اس نام کا ایک تیسرا شخص ہے۔ امام ابن جوزی نے اس پر کوئی طعن نہیں کیا لیکن یہ متعین نہیں ہے کہ اس سند میں کونسا شخص مراد ہے۔
بحوالہ: میزان الاعتدال ج ۳ ص ۲۲۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت ومخطوطہ

اس حدیث کا ایک اور راوی ہے عمرو بن جمیع۔ اس کے متعلق حافظ ذہبی لکھتے ہیں؛
ابن معین نے اس کو کذاب قرار دیا۔ امام دارقطنی اور ایک جماعت نے کہا: یہ متروک ہے۔ ابن عدی نے کہا: اس پر حدیث گھڑنے کی تہمت ہے۔ امام بخاریؒ نے کہا: یہ منکر الحدیث ہے
بحوالہ: میزان الاعتدال ج ۵ ص ۳۰۴ دارالکتب العلمیۃ بیروت
نظام معتزلی اور بعض اھل الظاہر قیاس کے منکر ہیں اور صحابہ کرام، تابعین عظام اور ان کےبعد کے جمہور علمائے قیاس کے قائل ہیں اور قیاس سے جو احکام مستنبط ہوں، ان پر عمل کرنا شرعاً جائز ہے اور عقلاً واقع ہے۔ بعض شوافع اور ابوالحسین بصری کے نزدیک اس پر عمل کرنا عقلاً واجب ہے۔ (بحوالہ: الجامع الاحکام القرآن جز ۷ ص ۱۵۵ دارالفکر

مجوزین قیاس کا احادیث سے استدلال

امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ نے اپنی صحیح میں یہ عنوان قائم کیا ہے: جس شخص نے کسی مسئلہ پیش آمدہ کو ایسی متعارف اصل پر قیاس کیا ہو جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے بیان فرمادیا ہو تاکہ سوال کرنے والا اس مسئلہ کو سمجھ سکے، اور اس عنوان پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی تاجدار ﷺ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور سوال کیا کہ میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی۔ پھر وہ حج کرنے سے پہلے فوت ہوگئی۔ کیا میں اسکی طرف سے حج کرلوں؟ آپ نے فرمایا: اسکی طرف سے حج کرلو۔ یہ بتاو کہ اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تم اس کو ادا کرتیں؟۔ اس نے کہا: ہاں! آپ نے فرمایا: پھر اللہ کا قرض ادا کرو۔ وہ ادا کیئے جانے کا زیادہ حقدار ہے۔
بحوالہ صحیح البخاری شریف ج ۸ رقم الحدیث ۷۳۱۵ دارالکتب العلمیۃ بیروت
نیز امام بخاری نے ایک باب کا یہ عنوان قائم کیا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق قاضیوں کا اجتہاد کرنا اور یہ کہا کہ نبی ﷺ نے صاحبِ حکمت کی تعریف کی ہے جبکہ وہ حکمت سے فیصلے کرے اور حکمت کی تعلیم دے اور ازخود کوئی حکم نہ دے اور خلفا سے مشورے کرے اور اہل علم سے تبادلہ خیال کرے، اور اس پر اس حدیث سے استدلال ہے:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صرف دو(قسم کے) آدمیوں پر حسد (رشک) کرنا جائز ہے۔ ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور اس مال کو راہ حق میں خرچ کرنے پر اس کو مسلط کردیا ہو اور دوسرا وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت دی ہو اور اسکے مطابق فیصلے کرتا ہو اور لوگوں کو تعلیم دیتا ہو۔
بحوالہ: صحیح بخاری ج ۸ رقم الحدیث ۷۳۱۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت
نیز امام بخاری نے ایک باب کا یہ عنوان قائم کیا: جن احکام کی معرفت دلائل سے ہو پھر دلائل کی یہ تفسیر کی کہ نبی ﷺ نے گھوڑوں کے احکام بیان فرمائے اور جب آپ سے گدھوں کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے ان کا حکم اس آیت سے مستنبط کیا (فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ) اور نبی ﷺ سے گوہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: میں اس کو کھاتا ہوں اور نہ اس کو حرام کرتا ہوں اور نبی ﷺ کے دسترخوان پر گوہ کھائی گئی ہے۔ اس سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ استدلال کیا ہے کہ گوہ حرام نہیں ہے اور اس عنوان کے تحت یہ حدیث سند کے ساتھ بیان کی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گھوڑے تین قسم کے ہیں۔ گھوڑا کسی کے لیئے باعث اجر ہوتا ہے اور کسی کی پردہ پوشی کا سبب ہوتا ہے اور کسی کے حق میں گناہوں کا بوجھ ہوتا ہے۔ وہ شخص جسکے لیئے اس کا گھوڑا باعث اجر ہے، یہ وہ شخص ہے جس نے گھوڑے کو اللہ کے راستہ میں باندھ دیا۔ وہ چراگاہ یا باغ میں تو اسکی رسی دراز کردیتا ہے۔ وہ اس چراگاہ یا باغ سے جو کچھ کھاتا ہے، وہ اسکی نیکیاں ہیں اور اگر وہ اسکی رسی کاٹ دے اور وہ کسی ایک ٹیلے یا دو ٹیلوں پر جائے توا اسکے چلنے اور اسکی لید کے بدلہ میں اسکی نیکیاں ہیں اور اگر وہ کسی دریا سے پانی پئے خواہ اس کا قصد پانی پلانے کا نہ ہو،پھر بھی اس میں اسکی نیکیاں ہیں اور اس گھوڑے میں اس شخص کے لیئے اجر ہے۔ اور ایک شخص نے گھوڑے کو اسلیئے رکھا کہ وہ اپنی ضروریات میں دوسروں سے مستغنی رہے اور اس سے سوال کرنے سے بچا رہے اور اس پر کسی کو سوار کرنے میں یا اس پر کسی کا بوجھ لادنے میں اللہ کے حق کو فراموش نہ کرے تو یہ گھوڑا اس کے گناہوں کی پردہ پوشی کا سبب ہے۔ اور ایک وہ شخص ہے جس نے اپنے گھوڑے کو فخر کرنے اور ریاکاری کے لیئے رکھا تو یہ اسکے اوپر گناہ ہے، اور رسول اللہ ﷺ سے گدھوں کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: مجھ پر ان کے متعلق کوئی خصوصی حکم نازل نہیں ہوا، مگر یہ آیت جو تمام احکام کو جامع ہے:
ترجمہ(سورۃ الزلزال ۸؛۷) جس نے ایک ذرہ کے برابر نیکی کی وہ اسکی جزا پائے گا اور جس نے ایک زرہ کے برابر برائی کی وہ اسکی سزا پائے گا۔
صحیح بخاری ج ۸ رقم الحدیث ۳۷۵۶، صحیح مسلم الزکوٰۃ ۲۴: ۹۸۷:۲۲۵۴، سنن نسائی ج ۶ رقم الحدیث ۳۵۶۳
اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ایک مخصوص اور جزی حکم پر ایک عام اور کلی حکم سے استدلال کیا ہے اور اس حدیث میں پیش آمدہ مسائل اور جزئیات پر شرعی کلیات سے استدلال کرنے کی دلیل ہے۔

مجوزین قیاس کا آثار صحابہ اور اقوال علما سے استدلال

علامہ ابوجعفر محمد بن جریر طبری نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نبی ﷺ کی سنت سے مسائل کا استنباط کرنا اور اجتہاد کرنا، اور امت کا اجماع برحق اور واجب ہے، اور اہل علم کے لیئے لازماً فرض ہے۔ اس کے ثبوت میں نبی ﷺ کی احادیث اور صحابہ و تابعین کی روایات موجود ہیں۔ ابو تمام مالکی نے کہا: کہ قیاس کے جواب پر امت کا اجماع ہے، یہی وجہ ہے کہ ائمہ اربعہ نے رباالفضل میں چھ چیزوں (سونا، چاندی، گندم، جو، نمک اور کھجور) پر دوسری چیزوں کو قیاس کیا ہے اور ان میں بھی زیادتی کے ساتھ بیع کو حرام قرار دیا ہے اور جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیعت لینے سے انکار کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمارے دین میں آپ پر راضی ہوگئے تو ہم اپنی دنیا میں آپ پر کیوں راضی نہیں ہوں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے امامت کو نماز پر قیاس کیا، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے زکوٰۃ کو نماز پر قیاس کیا اور کہا: بہ خدا اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکوٰۃ کو جمع کیا ہے میں ان میں تفریق نہیں کروں گا، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کے سامنے شراب کی حد کو حد قذف پر قیاس کیا اور فرمایا: انسان شراب کے نشہ میں ہذیان بکتا ہے اور ہذیان میں لوگوں پر تہمت لگاتا ہے لہٰذا اس کی حد بھی ۸۰ (اسی) کوڑے ہوگی، اور پھر اس حد پر تمام صحابہ کا اجماع ہوگیا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کہ جن نئے مسائل میں تم کو تشویش ہو اور کتاب اور سنت میں ان کی تصریح نہ ہو تو ان کے متعلق تم قیاس سے کام لو اور جو چیز حق کے مشابہ ہو اس پر عمل کرو۔ اس حدیث کو امام دارقطنی نے روایت کیا ہے۔
بحوالہ: سنن دارقطنی ج ۴ رقم الحدیث ۴۴۵۲۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت
امام بخاریؒ روایت کرتے ہیں:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام کے علاقہ میں گئے۔ حتیٰ کہ جب وہ مقام سرغ میں پہنچے تو ان سے لشکر کے امراء نے ملاقات کی، جن میں حضرت ابوعبیدہ بن جراح اور ان کے اصحاب بھی تھے۔ انہوں نے یہ خبر دی کہ شام میں وبا پھیل چکی ہے۔ اب ان کا اس میں اختلاف ہوا کہ وہ شام میں داخل ہوں یا نہ ہوں۔ بعض صحابہ نے کہا: ہم ایک کام کے لیئے آئے ہیں اور اس کام کو کیئے بغیر واپس نہیں جائیں گےاور بعض نے یہ کہا: کہ آپ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ہیں اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ آپ ان کو وبا میں جھونک دیں۔ حضرت عمر نے ان لوگوں کو مجلس سے اٹھا دیا اور انصار کو بلایا انہوں نے بھی مہاجرین کی طرح مشورہ دیا اور ان میں بھی اسی طرح اختلاف ہوا۔ پھر آپ نے ان کو بھی اٹھا دیا اور قریش کے عمر رسیدہ لوگوں کو بلایا۔ انہوں نے بالاتفاق یہ کہا کہ لوگوں کو اس بلا میں نہ ڈالیں اور واپس چلیں۔ پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اعلان فرمایا کہ ہم صبح یہاں سے روانہ ہوجائیں گے۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے کہا: کیا آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں! حضرت عمر نے فرمایا: اے ابوعبیدہ! کاش تمہارے علاوہ کوئی اور شخص یہ بات کہتا! ہم اللہ کی ایک تقدیر سے اللہ کی دوسری تقدیر کی طرف جارہے ہیں۔ یہ بتاؤ اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ایک وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں، ایک سرسبزاور ایک بنجر ہو۔ اگر تم سرسبز کنارے کی طرف جاؤ پھر بھی اللہ کی تقدیر کی طرف جاؤ گے اور اگر بنجر کنارے کی طرف جاؤ پھر بھی اللہ کی تقدیر کی طرف جاؤ گے۔ اس وقت حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ آگئے جو کسی کام سے گئے ہوئے تھے انہوں نے کہا: اس کے متعلق میرے پاس ایک حدیث ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تمہیں کسی علاقہ میں بلا کا علم ہو تو وہاں نہ جاؤ۔ اور جب تم کسی علاقہ میں ہو اور وہاں وبا آجائے تو وہاں سے نہ نکلو۔ پھر حضرت عمر نے اللہ کی حمد کی اور وہاں سے واپس لوٹ گئے۔ (بحوالہ صحیح بکاری ج ۷ رقم الحدیث ۵۷۲۹، دارالکتب العلمیۃ بیروت)۔
اس مضمون کی احادیث، آثار اور اقوال ائمہ بہ کثرت ہیں اور ان میں یہ دلیل ہے کہ قیاس دین کی ایک اصل اصیل ہے۔ مجتہدین اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور علمائے کرام اس سے استدلال کرتے ہیں اور احکام میں استنباط کرتے ہیں۔ اس پر ہردور کے علما کا اجماع رہا ہے اور چند شاذ لوگوں کی مخالفت سے اس اجماع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
جو قیاس ممنوع اور مذموم ہے یہ وہ قیاس ہے جس کی اصل کتاب اور سنت میں موجود نہ ہو، اور جو نصوصِ صریحہ سے متصادم ہو جیسے ابلیس کا قیاس تھا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کے صریح حکم کے مقابلہ میں قیاس کیا۔ حالانکہ قیاس اس وقت کیا جاتا ہے جب کسی مسئلہ میں صریح حکم نہ ہو۔ قرآن میں نہ حدیث میں۔ مخالفینِ قیاس نے اپنے موقف کی تائید میں جوروایات ضعیفہ اوراقوال ِ رکیکہ پیش کیئے ہیں برتقدیر ثبوت ان کا محمل اور اس قسم کا قیاس ممنوع اور مذموم ہے جس کی اصل کتاب، سنت اور اجماع امت میں موجود نہ ہو۔
بحوالہ : الجامع لاحکام القرآن جز ۷ صفحات ۱۵۵و۱۵۶ دارالفکر بیروت،وایضاً صفحات ۱۷۱/۱۷۲/۱۷۳دارعالم الکتب

 

امام فخر الدین محمد بن ضیاٗ الدین عمر رازی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں؛
قیاس کرنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ (فاعتبروا یٰٓاولی الابصار (الحشر ۲)) اے آنکھیں رکھنے والو! عبرت حاصل کرو۔
اس آیت میں قیاس کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ بصیرت رکھنے والے تھے اور قیاس کی شرائط پر سب سے زیادہ مطلع تھے اور اس آیت میں آپ کو بھی قیاس کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ آپ بھی قیاس کرتے تھے۔ (المحصول ج ۴ ص ۱۳۵۲، ۱۳۶۴ مکتبہ نزار مصطفیٰ ریاض )۔

Leave a comment