Dajjal Series Part 5


دی ڈریگن ٹرائی اینگل۔

Dragon Triangle

جس طرح برمیوڈا ٹرائی اینگل موجود ہے اور جس کے بارے میں بہت کچھ کہا لکھا پڑھا سنا جاچکا ہے، ویسے ہی اس دنیا میں ایک اور تکون بھی موجود ہے، اس تکونی سمندری حصے اور اس سے متعلق برمیوڈا جیسے حادثات کا مرکز جاپان کا ڈریگن تکون یا شیطانی سمندر ہے جس کے بارے میں لوگوں کو بہت کم معلومات ہیں۔ جاپان کے لوگوں کو اسکے بارے میں اچھی طرح علم ہے اور جاپانی حکومت نے سرکاری اعلان کے ذریعے لوگوں کو اس علاقے سے دور رہنے کا حکم جاری کررکھا ہے۔ جاپان سے باہر کی دنیا اس کے بارے میں کم ہی جانتی ہے۔ حالانکہ برمیوڈا ٹرائی اینگل کی طرح یہاں بھی جہازوں، آبدوزوں اور طیاروں کے غائب ہونے کے واقعات بڑی تعداد میں رونما ہوتے ہیں۔ اور بعض محققین کے مطابق یہاں حادثات کی تعداد برمیوڈا تکون سے زیادہ ہے۔ بلکہ ایک اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ اس طرح برمیوڈا سے زیادہ خطرناک سمجھا جاسکتا ہے کہ یہاں غائب ہونے والے جہاز اور آبدوزوں میں ایسے جہاز اور آبدوزیں بھی شامل ہیں جن میں خطرناک نیوکلیئر مواد بھرا ہوا تھا۔

یہ علاقہ بحرالکاہل (پیسیفیک اوشئین) میں جاپان اور فلپائن کے علاقے میں ہے۔ یہ تکون جاپان کے ساحلی شہر “یوکوہاما” سے فلپائن کے جزیرے “گوؤام” تک اور پھر وہاں سے جاپان کے “ماریانا” جزائر تک پھر ماریانا سے یوکوہاما تک بنتی ہے۔ ماریانا جزائر پر دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے قبضہ کرلیا تھا۔

اس سمندر کو جاپانی لوگ مانوؤمی کہتے ہیں جس کے معنی “شیطان کا سمندر” ہے۔

برمیوڈا اور شیطانی سمندر میں تعلق:
برمیوڈا اور شیطانی سمندر میں بہت گہرا ربط ہے۔ بعض محققین کے مطابق ایسے شواہد دیکھنے میں آئے ہیں کہ گمنام جہازوں کو ایک تکون سے دوسری تکون تک سفر کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ یہ دونوں تکون ایک ہی طول البلد و عرض البلد (35) پر واقع ہیں۔ جس طرح کے مشاہدات برمیوڈا تکون کے علاقے اور فضاء میں کیئے گئے ہیں اسی طرح شیطانی سمندر میں بھی اڑن طشتریوں کا آنا جانا، اس کے اوپر منڈلانا اور پانی کے اندر داخل ہونے اور نکلنے کے متعدد واقعات موجود ہیں۔ یہاں بھی خالی جہاز (بغیر کپتان اور عملے کے) سمندر میں تیزی سے سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی کو دیکھتے ہوئے بعض محققین نے “ٹائم اینڈ سپیس” میں “گم” ہوجانے اور “رپییٹڈلی” نظرآنے والے عوامل کے مدنظر اسکو ڈائمینشن کیپسول قرار دیا ہے۔چارلس برلٹز کی ایک کتاب “دی ڈریگن ٹرائینگل” میں لکھا ہے:

سنہ 1952ء تا 1954 جاپان نے اپنے پانچ بڑے فوجی جہاز اس علاقے میں کھوئے ہیں۔ افراد کی تعداد 700 سے زیادہ ہے۔ اس معمہ کا راز جاننے کے لیئے جاپانی حکومت نے ایک جہاز پر سو(100) سے زائد سائنسدانوں کو سوار کیا لیکن شیطانی سمندر کا معمہ حل کرنے والے خود معمہ بن گئے۔ اس کے بعد جاپان نے اس علاقے کو خطرناک علاقہ قرار دیدیا۔”

دوسری جنگ عظیم کے دوران بحری لڑائی میں جاپان کو اپنے پانچ طیارہ بردار جہازوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس کے علاوہ 340 طیارے، دس جنگی جہاز، دس جنگی کشتیاں، نواسپیڈ بوٹ اور 400 خود کش طیارے بھی اس تکون کے علاقے میں تباہ ہوئے۔ جنگ کے دوران اس نقصان کے بارے میں آپ کہہ سکتےہیں کہ یہ سب دشمن اتحادیوں کی جانب سے کیا گیا ہوگا لیکن اس بحری دستے کے بارے میں کیا تشریح کی جائیگی جو اسی علاقے میں بغیر کسی حادثے کے غائب ہوگیا۔ حالانکہ ابھی تک نہ تو وہاں امریکی اور نہ ہی برطانوی جہاز پہنچے تھے۔ ماہرین کی یہی رائے ہے کہ یہ تباہی کھلے دشمن کی جانب سے نہیں تھی۔ ایک محقق کہتا ہے:۔

It is extremely doubtful that they were sunken by enemy action because they were in home waters and there were no British or American ships in these waters during the beginning of the war”.

یہ بات انتہائی مشکوک ہے کہ ان جہازوں کو دشمن نے ڈبویا ہو کیونکہ یہ جہاز اپنی سمندری حدود میں تھے اور جنگ کے ابتداء میں وہاں برطانوی یا امریکی جہاز نہیں پہنچے تھے تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس علاقے میں کوئی اور چھپی ہوئی قوت بھی موجود تھی جو اس جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو کامیاب دیکھنا چاہتی تھی؟”

برمیوڈا تکون اور شیطانی سمندر میں اتنی زیادہ مماثلت جاننے کے بعد کیا کوئی یہ مان سکتا ہے کہ یہ محض اتفاق ہے؟۔ مشہور محقق چارلس برلٹز کہتا ہے۔

برمیوڈا تکون اور شیطانی سمندر میں جہازوں کا پراسرار طور پر غائب ہوجانا اتفاقی نہیں ہوسکتا، جبکہ دونوں علاقوں میں مماثلت پائی جارہی ہے۔ جہازوں اور طیاروں کے غائب ہونے میں دونوں جگہ ایک ہی نظریہ کار فرما ہے۔”

ڈریگن اور جنگی طیارے:
1۔ جاپان کا 16پی۔2جے نامی جنگی طیارہ جولائی 1971 کو غائب ہوا تھا یہ بھی کوئی ہنگامی پیغام نہیں دے سکا۔
2۔ 27 اپریل 1971 کو جاپان ہی کا ایک اور پی 2ٹو۔وی سیون نامی جنگی طیارہ غائب ہوا۔
3۔ اسکے بعد دو مہینے میں جاپان کا ایک تدریبی طیارہ آئی آیم۔ون غائب ہوا۔
4۔ مارچ 1957 میں دس دن کے اندر امریکہ کے تین جنگی طیارے اپنے تمام عملے سمیت اسطرح غائب ہوئے کہ کوئی نام ونشان نہ مل سکا۔ نہ ہی کسی حادثے یا فنی خرابی کا پیغام پائیلٹ کی جانب سے موصول ہوا۔ان طیاروں کے نام یہ تھے:۔KB-50, JD-1, C-97
مال بردار طیارے:
بانالونا، جو لائبیریا کا جہاز تھا اس پر 13616 ٹن وزن تھا اور عملے کی تعداد 35 تھی۔ نومبر 1971 میں شیطانی سمندر کی بھینٹ چڑھ گیا۔
مال بردار “صوفیا باباس” نامی جہاز ٹوکیو(جاپان) کی بندرگاہ سے روانہ ہوا اور تھوڑا چلنے کے بعد دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا لیکن غائب نہیں ہوا۔ سمندروں کے سینے چیرنے والی اور مریخ پر کمندیں ڈالنے والی ٹیکنالوجی اس کا سبب جاننے سے قاصر رہی۔ سبب نامعلوم۔ لبرل تفتیش کے دروازے بند؟
یونانی جہاز “اجیوس جیورجیس” 29 افراد پر مشتمل اغواء کرلیا گیا۔ اس پر 16565 ٹن وزن لدا ہوا تھا۔، جاپانی مال بردار جہاز “کروشیومارو2” بھی شیطانی سمندر کا لقمہ بن گیا۔ اس کا آخری رابطہ 22 اپریل 1949 کو ہوا تھا۔ مال بردار “ماسجوسار” نامی جہاز بھی لائبیریا کا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق یہ جہاز شیطانی سمندر میں تھا کہ اچانک آگ بھڑک اٹھی لیکن یہ آگ جہاز کے اندر سے نہیں بلکہ پانی سے جہاز کی طرف بڑھی تھی۔ بہت سے لوگوں نے اسی وقت اس کی تصویریں کھینچ لیں جس میں صاف نظر آرہا ہے کہ جہاز کے چاروں طرف پانی کی لہروں میں آگ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس جہاز میں کوئی قابل اشتعال مادہ نہیں تھا۔ اس سے بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ اس جہاز کو گھیرنے والی آگ مثلث کی شکل میں تھی۔ اس میں 24 افراد سوار تھے۔ یہ واقعہ مارچ 1987 میں پیش آیا۔ اسی طرح کاریومارو5۔ جیرانیوم وغیرہ کے ساتھ واقعات پیش آئے۔

جہاز کے غائب ہوجانے کے بارے میں تو یہ بہانہ کیا جاسکتا ہے کہ جہاز ڈوب گیا۔ لیکن جدید آبدوزیں جن میں جدید وائرلیس نظام موجود ہوا گر وہ اس علاقے میں غائب کردی جائیں تو کیا کہا جاسکتا ہے۔ اور پھر آبدوزیں بھی عام نہیں بلکہ ایٹمی۔ کسی سپر پاور کی ایٹامک آبدوز بغیر کسی سبب کے غائب ہوجائے اور اس کی طرف سے کوئی خاطر خواہ پریشانی یا اضطراب دیکھنے میں نہ آئے؟۔

جولف 1 نامی روسی آبدوز اپریل 1968 میں غائب ہوئی۔ اس کے عملے کی تعداد 86 تھی اور اس پر 800 کلوگرام ایٹمی وارہیڈ لدے ہوئے تھے۔فوکسٹرول نامی برطانوی ایٹمی آبدوز 1986 میں اپنے عملے سمیت ڈریگن تکون کے علاقے میں غائب ہوئی، جس کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں ہوسکا۔ چارلی نامی فرانسیسی آبدوز بھی ایٹامک تھی ستمبر 1984 میں اپنے 90 سواروں سمیت غائب ہوگی۔ وکٹر1 نامی روسی آبدوز جدید ایٹامک آبدوز تھی۔ یہ مارچ 1974 میں شیطانی سمندر کی خفیہ قوت کے پاس مع عملے کے چلے گئی۔عملے کی تعداد معلوم نہیں ہوسکی۔ شاید کوئی بہت خاص لوگ اس میں سوار تھے۔ ایکو2 نامی روسی ایٹامک آبدوز 1986 کو غائب ہوئی۔ ایکو1 پہلی آبدوز کے غائب ہونے کے صرف پانچ مہینے بعد ستمبر میں جاپان کے ساحل سے 60 میل دور یہ بھی شیطانی سمندر کی خفیہ قوت نے کسی “ضروری کام” سے اپنے پاس منگوالی۔

سیاسی جہاز:۔ فلپائنی صدر کا طیارہ ڈریگن تکون میں 19 مارچ 1957 کو بمع 24 حکومتی اہلکاروں کے فضاء میں پرواز کے دوران ہی غائب ہوگیا۔ جے اے 341 نامی طیارہ صحافیوں کی ایک ٹیم سمیت ڈریگن ٹرائی اینگل کے اوپر سے گزرتے ہوئے غائب ہوگئے جبکہ یہ صحافی امریکی مال بردار جہاز “کیلی فورنیامارو” (جو کہ پہلے یہاں غائب ہوچکا تھا) کی تحقیق کے سلسلے میں جارہے تھے۔

بعض مسلم محققین کے مطابق، پینٹاگون یہودی تعلیمات کے مطابق دجال کا عبوری عسکری ہیڈکوارٹر ہے۔ بُش جونیئر کے ادوار میں 9/11 شروع کرکے ایک اور عالمی ایجنڈا یہیں سے شروع ہوا۔ اس وقت ڈک چینی کا طوطی بول رہا تھا۔ گونتا نامو بے، بگرام اور ابوغریب وغیرہ میں قیدیوں کے ساتھ شیطانی (دجالی) سلوک کا حکم بھی اسی ملعون کی زبان سے نکلا تھا، اور روشن خیالی اور لبرل ازم کے علمبردار امریکہ کا قانون بن گیا تھا۔ “باشعور” امریکی عوام تو کیا کولن پاؤل اور “کالی جادوگرنی” کینڈولیزا رائس کو اس بات کا علم دوسال کے بعد ہوا، وہ بھی اخبار کے ذریعے۔۔۔دراصل امریکی صدور کی اکثریت ہی ماسونیوں سے پیدا ہے اور ان 7 خاندانوں اور 13 خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ پوری دنیا کے نظام پر قابض ہیں اور ان کے بارے میں کانسپریسی تھیوریز کہتی ہیں کہ ان کی براہ راست ملاقات دجال سے رہی ہے۔ ان کے علاوہ روکی فیلرز، مورگنز جیسے خاندان ہیں جن کے احکامات اور پالیسیوں کو “لبرل ازم اور جمہوریت” کےنام پر دنیا پر مسلط کیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف بھی انہی کے ہاتھوں کی ایک رکھیل ہے اور برطانیہ اور امریکہ جیسی طاقتیں ان کے بل پر چل رہی ہیں۔ دنیا کے موجودہ جمہوری نظام کی ڈوریں ان کے لونڈے ہلاتے ہیں۔

چنانچہ یہ بات قرین قیاس لگتی ہے کہ اگر دجال متحرک ہے تو ان یہودی خاندانوں سے وہ ضرور رابطے میں رہتا ہوگا۔افغانستان میں طالبان کی پسپائی کے بعد سب سے پہلے آنے والا یہودی راکی فیلر خاندان کا ایک بائیس سالہ ماسونی لڑکا تھا۔ جس نے اس آپریشن کی نگرانی کی تھی۔ اور “موسوروسیو” کے مطابق جس نے “ڈیوڈ راکی فیلر” کے متعلق کہا تھا کہ کہ کس طرح اس نے روسیو کو بتایا تھا کہ تم مستقبل قریب میں دیکھوگے کہ کس طرح دنیا ایک نام نہاد دشمن کو غاروں میں کھوؤں میں، گھاٹیوں میں تلاش کریگی اور ماسونیت کا ایک اور کھیل شروع ہوگا” اور جسکو ایکسپوز کرنے والے “روسیو” کو بعد میں قتل کردیا گیا۔یہ خاندان، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، عالمی ادارہ صحت، اقوام متحدہ، جنگی جہاز بنانے والی کمپنیوں، جدید اسلحہ ساز فیکٹریوں، میزائلز، خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا، فلمساز ادارہ ہالی وڈ اور دیگر ذراع میڈیا کے مالکان ہیں۔اس کی بابت مزید تفصیلات کے لیئے “دی راکی فیلر زینڈروم” کا مطالعہ کریں۔

یہ صیہونی خاندان صرف بینکار ہی نہیں بلکہ کبالہ کا علم بھی رکھتے ہیں۔اسلیئے بعض انگریز مصنفین نے ان کو “پانچ کبالہ” کے نام سے بھی یاد کیا ہے۔ یہ سب کٹٹر صیہونی لوگ ہیں۔ دجال اپنی خدائی کے اعلان سے پہلے انہی کو استعمال کرتے ہوئے اپنے لیئے راہ ہموار کرتا رہیگا۔ قرآن و حدیث سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ شیاطین اپنے انسانوں میں موجود دوستوں کی مدد کرتے ہیں۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
ابلیس اپنا تخت سمندر پر لگاتا ہے۔ لوگوں کو فتنوں میں ڈالنے کیلئے وہ اپنے لشکر روانہ کرتا ہے۔ جو اس کے لشکر میں سب سے زیادہ فتنہ پرور ہوتا ہے وہ ابلیس کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔(صحیح مسلم)۔

حضرت کعب احبار نے فرمایا:
سمندر کے کسی جزیرے میں ایک قوم ہے جو نصرانیت کی علمبردار ہے۔ وہ ہرسال ایک ہزار جہاز تیار کرتے ہیں، جب جہاز تیار ہوجاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ان جہازوں پر سوار ہوجاؤ، اللہ چاہے نہ چاہے۔ جب وہ سمندر میں ان کو ڈالتے ہیں تو اللہ تعالیٰ تیز ہوا بھیجتا ہے جو ان جہازوں کو تباہ کردیتی ہے۔ وہ ہربار جہاز بناتے ہیں اور یہی مسئلہ ہوتا ہے، سو جب اللہ تعالیٰ یہ معاملہ مکمل فرمانا چاہے گا تو ایسے جہاز بنائے جائیں گے کہ اس سے پہلے سمندر میں ایسے جہاز نہیں چلے ہونگے پھر یہ لوگ کہیں گےے کہ انشاء اللہ تم سوار ہوجاؤ چنانچہ یہ سوار ہوجائینگے اور کہیں گے: “ہم اس زمین کی طرف جارہے ہیں جہاں سے ہمیں نکال دیا گیا تھا۔”(کتاب الفتن لابن حماد)

حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ ابلیس کا مرکز سمندر میں ہے۔ ابلیس کا مرکز سمندر میں ایسی ہی جگہ ہوگا جہاں اللہ کا نام اور آذان کی آواز بھی نہ سنی جاتی ہو اور جہاں سے رہ کر انسانیت کے خلاف وہ اپنا مشن آسانی سے آگے بڑھا سکے۔ نیز حضرت کعب احبار کی مذکورہ روایت کو سامنے رکھا جائے اور برمیوڈا تکون اور ڈریگن تکون کے واقعات پر غور کیا جائے تو کچھ بعید نہیں کہ یہ دونوں مراکز ابلیس کے ہیں اور اس کا پروردہ کانادجال بھی اس کے ساتھ ہو۔ کیونکہ احادیث میں دجال کے کسی جزیرے پر قید ہونے کا بیان ہے۔

ابلیس کا “بدوی کے روپ میں” آنا، ابلیس کا انسانی شکل میں آکر اپنے ماننے والوں کو مشورے دینا تو اسلامی تعلیمات سے ثابت ہے۔ جنگ بدر کے موقع پر ابلیس خود میدان بدر تک گیا تھا۔ وہ بنو کنانہ کے سردار سراقہ ابن مالک کی شکل میں تھا اور ابوجہل کو مسلسل جنگ کیلئے برانگیختہ کررہا تھا، نیز جس طرح اللہ کے نیک بندے اولیاء اللہ کہلاتے ہیں ویسے ہی شیطان کے مددگاروں کو بھی اولیاء الشیطان کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ان کی متعدد صفات کی طرف مسبوط اشارات موجود ہیں۔ جیسے “ان الشیاطین لیوحون الی اولیائھم” ۔ بیشک شیطان اپنے دوستوں کو مشورے دیتے ہیں۔ یا جسے۔ “ھل انبئکم علی من تنزل الشیاطین تنزل علی کل افاک اثیم یلقون السمع واکثرھم کاذبون”۔ کیا میں تمہیں بتاؤن کہ شیاطین کن پر اترا کرتے ہیں۔ وہ ہر جھوٹے اور بدکردار شخص پر اترتے ہیں جو باتیں سننے کیلئے کان لگاتے ہیں اور اکثر جھوٹ بولتے ہیں۔ (سورہ انعام و سورۃ الشعراء)۔یا جیسے۔ اور جو لوگ رحمٰن کے ذکر سے غفلت کرتے ہیں ہم ان کے ساتھ شیطان لگا دیتے ہیں جو ان کا ہمجولی بن کر ان کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ بلاشبہ وہ شیطان ان کو سیدھے راستے سے روکتے ہیں اور وہ یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ صحیح راستے پر چل رہے ہیں۔ (سورۃ الزخرف) (لبرل ملحد غور کریں)۔

قرآن کریم کی ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ شیاطین اپنے انسانی دوستوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ بعض لوگوں کو ہوا میں عرش نظر آتا ہے جس کے اوپر نور ہوتا ہے اور آواز آتی ہے کہ میں تیرا رب ہوں تو اگر یہ شخص اللہ کی معرفت رکھتا ہے تو سمجھ لیتا ہے کہ یہ شیطان ہے۔ چنانچہ وہ شیطان کو رد کردیتا ہے اور اس سے اللہ کی پناہ چاہتا ہے جس کے نتیجے میں اللہ کا حصار اس جھوٹے نور کو ختم کردیتا ہے۔ بعض ایسے بھی ہیں جن کو شیاطین قید سے آزاد کرالیتے ہیں اور(اگر ان لوگوں پر کوئی کسی ہتھیار سے حملہ کرے) تو وہ شیاطین اس حملے سے اس آدمی کا دفاع کرتے ہیں۔ جیسا کہ عبدالملک بن مروان کے دور میں حارث دمشقی کا واقعہ ہے جس نے شام میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا، شیاطین اس کے پیروں کو بیڑیوں سے آزاد کرالیتے اور اسلحے کے وار سے اس کی حفاظت کرتے۔ اگر وہ پتھر پر ہاتھ پھیرتا تو پتھر تسبیح پڑھنے لگتا۔ لوگوں کو ہوا میں پیادہ اور گھوڑوں پر سوار مرد نظر آتے ہیں۔ حارث کہتا ہے کہ یہ فرشتے ہیں حالانکہ وہ شیاطین تھے۔ چنانچہ جب مسلمانوں نےا سے پکڑا اور قتل کرنے کیلئے ایک نیزہ بردار مجاہد نے اس کو نیزہ مارا تو نیزے نے اس پر کوئی اثر نہ کیا۔ عبدالملک بن مروان نے اس نیزہ بردار کو کہا کہ تم نے بسم اللہ نہیں پڑھی۔ پھر اس نے بسم اللہ پڑھ کر نیزہ مارا تو حارث مرگیا۔ موجودہ ادوار کے مغربی جادوگروں جیسے ڈیوڈ کوپرفیلڈ وغیرہ بھی انہیں شیاطین کی مدد لیتے رہےہیں۔پینٹاگون، ایرا 51 اور ایریا21 کے صیہونی اچھی طرح جانتے ہیں کہ برمیوڈا اور ڈریگن کے پس پشت کیا قوت پائی جاتی ہے۔ایسا کہنا فلائیٹ 19 (جس میں 5 طیارے ایک ساتھ غائب ہوئے تھے) میں موجود کپتان کیپٹن پاورس کی بیوہ جون پاورس کا بھی ہے جو کہتی ہے

ان لوگوں نے برمیوڈا ٹرائی اینگل میں یقیناً کوئی چیز دیکھ لی تھی کوئی ایسی حیرت انگیز اور پراسرار چیز دیکھ لی تھی جس نےا ن کے تمام آلات کو ناکارہ کردیا تھا۔ کوئی ایسی چیز جس نے لیفٹیننٹ ٹیلر کو اتنا خوفزدہ کردیا تھا کہ اس نے کسی کو اپنا تعاقب کرنے اور اپنی جان خطرے میں ڈالنے سے منع کردیا تھا۔ کوئی ایسی چیز ہے جس کو قومی سلامتی کی خاطر امریکی بحریہ عوام الناس سے چھپانا چاہتی ہے”۔

2 thoughts on “Dajjal Series Part 5”

Leave a comment