Kissing of Hajral Aswad & Quboor of Saliheen Hadith and Exegesis [Urdu]


حدیث ء بخاری باب المناسک ترجمہ و تشریح حدیث
حدیث ۹۵۰
عن عابس بن ربیعۃ عن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہ جاء الی الحجر الاسود فقلبہ فقال انی لا علم انک حجر لاتضر ولا تنفع ولولا انی راءیت النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقبلک ما قبلتک
ترجمہ
حضرت عابس بن ربیعہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دیا پھر کہا میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع اور اگر میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو نہ دیکھا ہوتا کہ وہ تیرا بوسہ لیتے تھے تو میں بھی تیرا بوسہ نہ لیتا۔
تشریحات
یہ حدیث مختلف الفاظ اور کچھ زیادتی وکمی کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عروہ، حضرت اسلم حضرت عبداللہ بن سرجس ، سوید بن غفلہ ، عابس بن ربیعہ ، (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) سے مروی ہے۔ امام حاکم نے اپنی مستدرک میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔ کہ ہم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا۔ انہوں نے جب طواف کرنا چاہا تو حجر اسود کی طرف منہہ کیا اور فرمایا۔ میں قطعی طور پر جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے ، نہ کسی کو نقصان پہنچاتا ہے نہ فائدہ۔ اگر میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو تیرا بوسہ نہیں لیتا۔ یہ کہہ کر اس کا بوسہ لیا۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے امیر المؤمنین بلاشبہ یہ ضرر بھی دیتا ہے اور نفع بھی پہنچاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا ۔ کیسے؟ ۔ تو فرمایا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے میں نے سنا کہ قیامت کے دن حجر اسود کو لایا جائے گا اور اس کو شستہ زبان ہوگی۔ جس نے اس کا توحید کے ساتھ بوسہ دیا ہے اس کے بارے میں گواہی دے گا۔ اسلیئے امیر المؤمنین وہ ضرر بھی دیتا ہے اور نفع بھی۔ اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ایسی قوم سے جس میں ابوالحسن تم نہ ہو
اسے ارزقی نے تاریخ مکہ میں بھی ذکر کیا ہے۔ ان کے اخیر کے الفاظ یہ ہیں
اعوذ باللہ ان اعیش فی قوم الست فیھم۔ میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ ایسی قوم میں زندگی گزاروں جس میں تم نہ ہو۔
اس حدیث کے ایک راوی ابوہارون عمارہ بن جوین ضعیف ہیں۔ مگر حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کے نافع اور ضار ہونے کی دلیل میں جو حدیث ذکر فرمائی ہے۔ اس کی تائید دوسری احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ امام احمد ، امام ابن ماجہ، امام دارمی، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روای ہیں کہ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واللہ قیامت کے دن اللہ عزوجل حجر اسود کو اسطرح اٹھائے گا کہ اس کو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جس سے کلام کرے گا جس نے حق کے ساتھ اسے بوسہ دیا اس کے لیئے گواہی دے گا۔
حوالہ جات؛۔ (۱) عمدۃ القاری تاسع ص ۲۴۰ (۲) مسند احمد بن حنبل ج ۱ ص ۳۰۷ اور (۳) ابن ماجہ مناسک باب استلام الحجر ص ۲۱۷ ،،(۴) مسند احمد ج ۱ ص ۳۰۷ ۳۲۹
امام احمد باب الحج باب فی فضل الحجر الاسود ص ۱۰۷ اور امام ترمذی ج۲ ص ۳ تا ۱۱ نے انہیں سے روایت کیا ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حجر اسود جب جنت سے آیا تھا تو دودھ سے زیادہ سفید تھا۔ بنی آدم کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا۔ مسند امام احمد میں ہے کہ اہل شرک کی گناہوں نے ۔ اور اسی مسند احمد میں ص ۱۱ پر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ۔ رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ ان دونوں رکن (رکن یمانی اوررکن حجر الاسود) کا چومنا گناہوں کو مٹادیتا ہے۔
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ حجر اسود نفع دیتا ہے جس نے ایمان کے ساتھ اس کا بوسہ لیا ہے۔ اس کے حق میں قیامت کے دن گواہی دے گا۔ کیا یہ معمولی نفع ہے؟۔ بوسہ دینے والوں کی گناہوں کو مٹاتا ہے ۔ کیا یہ نفع پہنچانا نہیں؟
ابن ماجہ ، المناسک باب فضل الطواف ص ۲۱۸ میں ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ فرمایا۔
ترجمہ؛۔ جس نے اس کو بوسہ لیا وہ رحمٰن کے ید قدرت کو بوسہ لیتا ہے۔
امام ابو عبید (عمدۃ القاری تاسع ص ۲۴۰ غریب الحدیث میں اور جندی فضائل مکہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روای ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ رکن اسود یقیناً زمین میں اللہ عزوجل کا ید رحمت ہے۔ (اس کے ذریعہ) اللہ اپنے بندوں سے مصافحہ فرماتا ہے جیسے ایک شخص اپنے بھائی سے مصافحہ کرتا ہے۔
نیز حکم بن ایان عن عکرمہ عن ابن عباس کی حدیث میں ہے ۔ جس نے رسول اللہ علیہ السلام کی بیعت نہیں پائی۔ اور حجر اسود کا بوسہ لے لیا تو اس نے اللہ اور اسکے رسول سے بیعت کی۔
کیا ایک بندے کے لیئے اس سے بڑی سعادت اور کچھ ہوسکتی ہے اور کیا یہ نفع پہنچانا نہیں؟ رہ گیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ ارشاد ۔ اس کی توجیہ یہ ہے کہ انہیں یہ حدیثیں نہیں پہنچیں تھیں۔ اور ابھی لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے بت پرستی سے قریب العہد تھے۔ عہد جاہلیت میں بتوں کے بارے میں یہ اعتقاد تھا کہ یہ مستقل بالذات نافع اور ضار ہیں اس کا اندیشہ یہی تھا کہ کہیں یہی اعتقادِ بد حجر اسود کے بارے میں مسلمانوں میں پیدا نہ ہوجائے۔ اس کے ازالے کے لیئے وہ فرمایا۔ مگر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بتایا تو تسلیم فرمالیا۔ اسلیئے اب ان کے اس ارشاد کو دلیل بنا کر یہ کہنا کہ حجر اسود نفع ضرر نہیں پہنچاتا درست نہیں ہے۔
ایک فائدے کی بات اور
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ امتی پر حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کا اتباع لازم ہے۔ اگرچہ اس کی علت اور سبب معلوم نہ ہو۔ اسی میں سلامتی ہے ۔ بلکہ ہر حکم شرعی کی علت معلوم کرنیکی کوشش آدمی کو گمراہ بھی کرسکتی ہے۔ جب انسان ، اللہ عزوجل اور رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہرارشاد اور عمل کی کنہ جاننے کی عادت ڈالے گا تو اگر کچھ ارشادات و اعمال کا مقصد نہ جان سکے گا۔ تو اس میں شک اور تردد ہوسکتا ہے۔ اور یہی گمراہی کی بنیاد ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کی باتوں کی نیو جاننے سے عاجز ہے۔ پھر وہ اللہ عزوجل اور رسول اللہ علیہ السلام کے ارشادات واعمال کی کُنہ بھی ضرور جان لے۔ یہ ممکن نہیں۔ ہمارا کام صرف اطاعت اور اتباع ہے اسبات اور وجوہات و مقاصد جاننے کے نہ ہم مکلف اور نہ یہ ہمارے بس میں ہے۔
احکام
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حجر اسود کو بوسہ دینا سنت ہے۔ اگر بھیڑ کی وجہ سے بوسہ نہ دے سکے تو اس پر ہاتھ رکھ کر ہاتھ کو بوسہ دے۔ اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسکی طرف اشارہ کرکے ہاتھ کو چوم لے۔
حضرت امام شافعی نے فرمایا ۔ حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کعبہ مقدسہ کے دوسرے حصوں کا بھی بوسہ دینا حسن ہے۔ علامہ زین الدین ، استاذ علامہ عینی نے فرمایا۔ اماکن شریفہ اور صلحا مشائخ کے ہاتھ اور پاوں بہ نیت تبرک چومنا بھی حسن ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا۔ کہ رسول اللہ علیہ السلام نے آپ کی مبارک ناف پر بوسہ دیا تھا۔ لایئے میں اسے بوسہ دوں۔ رسول اللہ علیہ السلام کے آثار اور ان کی آل سے برکت حاصل کرنے کے لیئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کی مبارک ناف کا بوسہ لیا۔
حضرت ثابت بنانی حضرت انس رضی اللہ عنہ کا دست مبارک پکڑ کر چھوڑتے نہیں تھے جب تک اسے بوسہ نہ دے لیتے کہتے یہ وہ ہاتھ ہے جس نے رسول اللہ علیہ السلام کا دستِ مبارک چھوا ہے۔
حضرت امام احمد سے سوال ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پرانوار اور منبر اقدس کو بوسہ دینا کیسا ہے؟ فرمایا۔ کوئی حرج نہیں۔ حضرت امام احمد نے حضرت امام شافعی کا کرتا دھو کر اسکا پانی پیا جب اہل علم کی تعظیم کا یہ حال ہے تو صحابہ کرام کے مزارات اور انبیائے کرام کے آثار کی تعظیم و تکریم کیوں ممنوع ہوگی؟۔۔۔۔ مجنوں نے لیلیٰ کے بارے میں کتنا اچھا کہا ہے۔
امر علی الدیار دیار لیلےٰ ۔ میں لیلیٰ کے دیار میں گزرتا ہوں
اقبل ذاالجداروذاالجدار ۔ تو اس دیوار کو اور اُس دیوار کو بوستہ دیتا ہوں
وماحب الدیار شغفن قلبی ۔ ان دیار کی عمارتوں نے میرا دل نہیں لبھایا
ولکن حب من سکن الدیار۔ میرے دل کو اس نے لبھایا ہے جو ان دیار میں رہتا ہے۔
مناسک باب ماذکر فی الحجر الاسود ص ۲۱۷ ، باب الرمل فی الحج والعمرۃ ص ۷۱۸ مسلم الحج ابوداود مناسک ترمذی، الجع نسائی ابن ماجہ دارمی مناسک ۔ موطا امام مالک الجع مسند امام احمد ج ۱ ص ۲۶۔ نوٹ ہمارے ہاں جو عینی کا نسخہ ہے اس میں مقادیر الصحابہ ہے۔ غالباً یہ کاتب کی غلطی ہے۔ اسکے کوئی معنی نہیں۔ صحیح مقابر ہے۔
امام محب الطبری نے فرمایا ۔ حجر اسود اور رکن یمانی کے بوسے سے مستنبط کیا جاتا ہے کہ جس کے بوسہ دینے میں اللہ کی تعظیم ہے۔ اس کا بوسہ دینا جائز ہے۔ کیونکہ اگر اس کے مندوب ہونے پر کوئی حدیث نہیں آئی ہے تو کراہت کی بھی کوئی حدیث نہیں ، میں نے اپنے جد کریم محمد بن ابوبکر کی بعض تعلیقات میں دیکھا ہے کہ انہوں نے امام ابوعبداللہ محمد بن ابوالصیف سے نقل کیا کہ انہوں نے بعض بزرگوں کو دیکھا ہے کہ وہ جب قرآن مجید دیکھتے تو اسے بوسہ دیتے۔ جب حدیث کے اجزا دیکھتے تو بوسہ دیتے اور جب صالحین کی قبریں دیکھتے تو بوسہ دیتے۔ جس میں اللہ کی تعظیم ہو اسے بوسہ دینے میں کچھ بعید نہیں ۔ واللہ اعلم (بحوالہ عمدۃ القاری تاسع ص ۲۴۱)۔
ایسے افراد ایسے مقامات ایسی چیزوں کی تعظیم وتکریم جو اللہ عزوجل کے محبوب اور اسکی پسندیدہ ہیں ۔ حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی کی تعظیم ہے کیونکہ ان کی تعظیم و تکریم صرف اس وجہ سے ہے کہ یہ اللہ عزوجل کے محبوب اور اس کے منتخب ہیں تو یہ تعظیم اللہ عزوجل کے حسن انتخاب کی ہوئی۔ اور یہ بلاشبہ اللہ عزوجل ہی کی تعظیم ہے۔ اسی کو قرآن مجید میں فرمایا گیا
سورہ الحج ۳۱ ۔ ومن یعظم حرمٰت اللہ فھو خیر لہ عندربہ ۔ اللہ نے جن چیزوں کو محترم کیا ہے جو ان کی تعظیم کرے تو یہ اس کے رب کے حضور بہتر ہے
سورہ الحج ۳۲ ۔ ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب ۔ اور جو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ اس کے دل کی پرہیزگاری ہے۔
بزرگان دین کے مزارات طیبہ سے جو روحانی وجسمانی فیوض لوگوں کو پہنچتے ہیں ۔ وہ اسکی دلیل ہیں کہ یہ اللہ کے کسی محبوب بندے کا مزار ہے۔ اور اسکی دلیل ہے کہ جب بندے میں محیر العقول تصرف ہے تو جس معبود برحق کے یہ محبوب ہیں جس کی عطا ودین سے انہیں یہ قوت حاصل ہوئی ہے وہ کتنی عظیم قدرت والا ہوگا۔ اسی سے بزرگانِ دین اور ان کے مزارات طیبہ بلاشبہ اللہ عزوجل کے شعائر میں سے ہیں۔
بوسہ قبر
مجدد اعظم حضرت امام احمد رضا ماتریدی حنفی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا۔ قبروں کا بوسہ نہیں لینا چاہیئے (بحوالہ فتاوی رضویہ ج۴ ص ۱۶۳)۔ بعض علما اجازت دیتے ہیں اور بعض روایات بھی نقل کرتے ہیں۔ کشف الغطا میں ہے ۔ درکفایۃ الثعبی اثرے درتجویز بوسہ قبر والدین رانقل کردہ و گفتہ دریں صورت لاباس بہ است۔ و شیخ اجل در شرح مشکوٰۃ بورودآں در بعضے اشارت کردہ بے تعرض بجرح آں۔۔۔۔۔۔۔ کفایۃ الثعبی میں (ایک اثر) والدین کی قبر کے بوسہ دینے کے جائز ہونے کے بارے میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس صورت میں کوئی حرج نہیں اور شیخ اجل نے شرح مشکوٰۃ شریف میں ان بعض کے ورود کی جانب اشارہ کیا ہے اس پر جرح کے تعرض کے بغیر)۔ مگر جمہور علما مکروہ جانتےہیں۔ تو اس سے احتراز ہی چاہیئے۔ اشعۃ اللمعات میں ہے (مسح نہ کند قبر رابدست و بوسہ نہ دہد آں را) یعنی (قبر پر ہاتھ نہ پھیرے اور بوسہ نہ دے)۔ کشف الغطا میں ہے ۔ کذٰلک فی عامۃ الکتب مدارج البوۃ میں ہے۔ دربوسہ قبر والدی روایت فقہی می کنند وصحیح آنست کہ لایوز است۔ (والدین کی قبر کو بوسہ دینے کے بارے میں فقہی روایت نقل کرتے ہیں۔ اور صحیح یہ ہے کہ جائز نہیں)۔ ایضاً ۱۸۰،۱ اور عوام کے سامنے تو ہرگز ہرگز نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ وہ اپنی کم عقلی سے کہیں سجدہ نہ سمجھنے لگیں یا سجدہ کرنے لگیں یا غلط پروپیگنڈہ کریں کہ فلاں قبر کو سجدہ کرتا تھا۔

for reading in Inpage fonts visit out Forum 

Leave a comment